’نتیجہ جو بھی ہو خبر اچھی ہے‘، اسامہ کے قتل پر زرداری کا یہ تھا رد عمل

بارک اوباما نے لکھا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ کسی اتحادی ملک کے اندر فوجی حملے کا حکم دینا اس کی سالمیت کی خلاف ورزی ہے لیکن وہ القاعدہ کے رہنما کے خاتمے کا موقع کھونا نہیں چاہتے تھے۔

تصویر گیٹی
تصویر گیٹی
user

یو این آئی

سابق امریکی صدر بارک اوبامہ نے ہر ممکن حد تک جارحانہ انداز میں ایک اہم اتحادی کے علاقے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی امریکی کارروائی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ کسی بھی طرح سے القاعدہ کے رہنما کے خاتمے کا موقع کھونا نہیں چاہتے تھے۔

اپنی آپ بیتی میں انہوں نے بہر حال دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کو اس امریکی کارروائی کی خبر جب دی گئی تووہ توقع سے زیادہ آسان ثابت ہوئی۔ بقول ان کے اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے واضح جذبات کےاظہار میں یاد کیا تھا کہ کس طرح القاعدہ انتہا پسندوں نے ان کی شریک حیات بے نظیر بھٹو کو قتل کیا تھا۔


'اے پرامس لینڈ' نامی کتاب کل منگل کے روز عوامی سطح پر سامنے آئی ہے جس میں امریکی کمانڈوز کی کارروائی کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات کیے گئے ہیں جو 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد کے ایک کمپاؤنڈ میں دنیا کے انتہائی مطلوب دہشت گرد اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا سبب بنی تھی۔

بارک اوباما نے لکھا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ کسی اتحادی ملک کے اندر فوجی حملے کا حکم دینا اس کی سالمیت کی خلاف ورزی ہے لیکن وہ القاعدہ کے رہنما کے خاتمے کا موقع کھونا نہیں چاہتے تھے۔ اس لئے تمام تر آپریشنل اور سفارتی مفادات کی پیچیدگیوں کے باوجود انہوں نے یہ قدم اٹھایا۔


سابق امریکی صدر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ان کے دو قریبی ساتھیوں جو بائیڈن اور سیکریٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے اس کارروائی کی مخالفت کی تھی۔ کارروائی کے بعد مسٹر اوباما نے متعدد امریکی رہنماؤں اور صدر پاکستان سمیت کئی عالمی رہنماؤں کو کال کیا۔

انہوں نے لکھا کہ 'مجھے توقع تھی کہ پاکستان کے صدر کو فون کرنا سب سے مشکل ثابت ہوگا جنہیں لازمی طور پر پاکستان کی سالمیت کی خلاف ورزی پر ملک میں مخالفت کا سامنا ہوگا لیکن جب انہیں کال کی گئی تو انہوں نے مبارکباد دی اور کارروائی کی تائید کا اظہار کیا اور کہا کہ چاہے جو بھی نتیجہ ہو یہ بہت اچھی خبر ہے۔


بعدازاں بارک اوباما کے مطابق امریکی فوج کے سربراہ مائیک مُلین نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو کال کرکے کارروائی کی اطلاع دی تھی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے درخواست کی تھی کہ جتنا جلد ممکن ہو کارروائی اور اس کے ہدف کے بارے میں وضاحت کریں تاکہ پاکستانی عوام کے ردِ عمل کو سنبھالنے میں مدد مل سکے۔

مسٹر اوباما کے مطابق انہوں نے اس کارروائی میں پاکستان کو شامل کرنے سے اس لئے انکار کردیا تھا کیوں کہ ان کا خیال تھا پاکستان میں کچھ عناصر طالبان بلکہ القاعدہ سے بھی روابط رکھتے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔