نیپال میں نوجوان نسل اچانک پرتشدد نہیں ہوئی بلکہ یہ آگ نو ماہ سے لگی ہوئی تھی

کے پی اولی کے استعفے کا مظاہرین پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا اور استعفیٰ کے بعد بھی نیپال کے کئی حصوں میں تشدد جاری رہا۔ اب فوج نے سکیورٹی آپریشنز کی کمان سنبھال لی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

9 ستمبر کو وزیر اعظم کے پی شرما اولی کے استعفیٰ کے بعد ملک میں سیاسی رسہ کشی مزید گہری ہو گئی ہے۔ نیپالی فوج نے کہا کہ وہ سیکورٹی آپریشنز کی کمان سنبھال رہی ہے۔ فوج نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس طرح کی سرگرمیاں جاری رہیں تو تشدد کو روکنے کے لیے نیپال کی فوج سمیت تمام سکیورٹی میکانزم کو متحرک کیا جائے گا۔ نیپالی فوج نے بھی عوام سے تعاون کی اپیل کی ہے اور شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ تباہ کن سرگرمیوں میں ملوث نہ ہوں یا ان کا ساتھ نہ دیں۔

نیپال کی سڑکوں پر مظاہروں کی تصویر چند دن پرانی نہیں بلکہ کئی ماہ پرانی ہے۔ یہ نوجوان صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی سے ناراض نہیں تھے بلکہ سوشل میڈیا پر کرپشن، اقربا پروری، حکومتی جبر کے خلاف طویل عرصے سے آواز اٹھا رہے تھے۔ یہ تحریک جنوری 2025 میں شروع ہوئی جب نوجوانوں نے معاشی عدم مساوات اور بدعنوانی کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع کی۔ رفتہ رفتہ صورتحال ایسی بن گئی کہ یہ نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا س کو پوری دنیا نے دیکھا۔


جنوری 2025 سے جولائی 2025 تک، نیپال کے نوجوانوں نے بدعنوانی کے الزامات میں گھرے کے پی اولی اور ان کے وزراء کے خلاف #EndCorruptionNepal اور #YouthForChange جیسے ہیش ٹیگز کے ساتھ ایک مہم چلائی۔ پہلے تو یہ حکومت مخالف مہم آن لائن جاری رہی لیکن آہستہ آہستہ لوگ سڑکوں پر نکلنے لگے۔ نوجوانوں نے کرپشن، حکومتی پالیسی اور بے روزگاری کے بارے میں ویڈیوز بنا کر پوسٹ کرنا شروع کر دیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ سوشل میڈیا پر حکومت مخالف نعرے ٹرینڈ ہونے لگے۔

گزشتہ ہفتے نیپال کی حکومت نے فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام، ایکس اور یوٹیوب سمیت 26 سوشل میڈیا سائٹس پر پابندی لگا دی ۔ گزشتہ ماہ نیپال کی سپریم کورٹ کے ایک حکم کے تحت حکومت نے ان کمپنیوں کو رجسٹر کرنے اور شکایات کے ازالے کے لیے افسران کی تقرری کی آخری تاریخ دی تھی۔ رجسٹر نہ کرنے والی کمپنیوں پر پابندی لگا دی گئی۔


لوگوں نے اسے حکومت کی طرف سے آزادی اظہار پر حملہ اور نوجوانوں کو ملک اور دنیا سے رابطہ کرنے سے روکنے کے طور پر لیا۔ اس حوالے سے 'ہم نیپال' تنظیم نے کھٹمنڈو میں احتجاج کی اجازت مانگی اور حکومت نے بھی اس کی اجازت دے دی۔ حکومت نے اس تحریک کو معمول کے مطابق لیا لیکن سڑکوں پر نکلنے والے نوجوانوں کی تعداد کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ نوجوان نہ صرف سڑکوں پر نکل آئے بلکہ پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ کھٹمنڈو میں مظاہرے کے بعد یہ تحریک دوسرے شہروں میں بھی پھیلنے لگی۔

اگرچہ سوشل میڈیا پر پابندی 8 ستمبر کو دیر سے ہٹا دی گئی تھی، لیکن احتجاج نے 9 ستمبر کو زور پکڑ لیا۔ ہجوم نے سابق وزیر اعظم کے گھر کو آگ لگا دی۔ عینی شاہدین کے مطابق گھر کے اندر پھنسی ان کی بیوی راجی لکشمی چترکر شدید جھلس گئی اور وہ اسپتال میں دم توڑ گئیں۔ مظاہرین نے کرفیو اور سیکورٹی فورسز کی بھاری تعیناتی کی خلاف ورزی کی اور آتش زنی کی اور مختلف اہم عمارتوں اور اداروں پر دھاوا بول دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔