خواتین کی ’چھاتیوں کو پچکا دینے‘ کا دردناک رواج

یہ ایک قدیم اور دردناک رواج ہے جو کیمرون میں آج تک جاری ہے۔ چھوٹی بچیوں کی چھاتیوں کو باندھ دیا جاتا ہے یا پھر پتھر کی مدد سے انہیں پچکا دیا جاتا ہے۔ خواتین کے حقوق کی تنظیمیں اس رواج کی مخالف ہیں۔

خواتین کی ’چھاتیوں کو پچکا دینے‘ کا دردناک رواج
خواتین کی ’چھاتیوں کو پچکا دینے‘ کا دردناک رواج
user

ڈی. ڈبلیو

وینی ایونو نڈونگ کیمرون کے دارالحکومت یاؤندے کے ایک پرائمری اسکول میں ستّر بچوں اور بچیوں کے سامنے کھڑی ہیں۔ ان تمام کی عمریں ابھی نو سے گیارہ برس کے درمیان ہیں۔ ریناٹا نامی غیر سرکاری تنظیم سے تعلق رکھنے والی وینی ایونو نڈونگ تیسری کلاس کے ان بچوں کو اس موضوع کے بارے میں آگہی دے رہی ہیں، جو کیمرون میں شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ کیمرون میں ’بریسٹ آئرننگ‘ یا ’چھاتیوں کو پچکا دینے‘ کا رواج عشروں پرانا ہے۔ اس رواج کے خاتمے کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ آج تک جاری ہے۔ اس رواج پر یقین رکھنے والوں کے مطابق اس طریقے سے لڑکیوں کو جنسی ہراسانی اور قبل از وقت شادی سے بچایا جا سکتا ہے۔

وینی ایونو نڈونگ گزشتہ سات برسوں سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہفتے میں ایک بار کسی نہ کسی اسکول جاتی ہیں۔ نڈونگ خود بھی اسی رواج سے متاثر ہوئی تھیں۔ اٹھارہ برس کی عمر میں حاملہ ہونے والی نڈونگ کو اس وقت مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، جب ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی اور وہ اپنی بیٹی کو مناسب طریقے سے دودھ بھی نہیں پلا سکتی تھیں۔

پھر ایک دن انہیں ایک نوجوان ماں کے طور پر ریناٹا نامی تنظیم کی طرف سے ایک ورکشاپ میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ نڈونگ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں اس وجہ سے اس ورکشاپ میں گئی تھی کہ سفر کے اخراجات اس تنظیم نے اٹھائے تھے۔ لیکن وہاں جا کر مجھے محسوس ہوا کہ میری زندگی ابھی ختم نہیں ہوئی۔‘‘

ریناٹا نامی تنظیم سن دو ہزار پانچ سے ’بریسٹ آئرننگ پریکٹس‘ کے خلاف آگہی کی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔ مختلف ورکشاپس میں خاص طور پر نوجوان ماؤں کو اس عمل کے نتائج سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ نڈونگ کی پرورش تو ملکی دارالحکومت میں ہی ہوئی تھی لیکن وہ اس رواج کی بھینٹ اس وقت چڑھیں، جب نو برس کی عمر میں وہ چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنی دادی کے پاس گئی تھیں۔ اسی وقت نڈونگ کی ایک کزن کی چھاتیاں بھی پچکا دی گئی تھیں۔ ان کی دادی نے ایک کُفچہ لیا، اسے آگ پر اچھی طرح گرم کیا اور اس سے ان کی کزن کی چھاتیوں کو اچھی طرح دبا دیا گیا۔

نڈونگ اس حوالے سے بتاتی ہیں، ’’میں نے جب اپنی کزن کو چلاتے ہوئے دیکھا تو اسے سے پوچھا کہ کفچہ اس قدر تکلیف دہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس نے صرف یہ بتایا کہ یہ بہت ہی دردناک ہے۔‘‘ اس کے چند دن بعد ہی نڈونگ کو بھی اسی عمل سے گزرنا پڑا اور تکلیف ناقابل بیان تھی۔ نڈونگ بتاتی ہیں، ’’میں نے اپنی دادی کو بتایا تھا کہ درد میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا۔ میری دادی نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ابھی اس کا معائنہ کرتی ہیں۔‘‘

قصداﹰ بد شکل بنانے کا عمل

’بریسٹ آئرننگ‘ کے حوالے سے فی الحال بہت ہی کم اعداد و شمار دستیاب ہیں۔ اس حوالے سے تازہ ترین جائزہ سن دو ہزار تیرہ میں ایک جرمن ترقیاتی تنظیم ’جی آئی زیڈ‘ کی مدد سے مکمل کیا گیا تھا۔ اس جائزے کے مطابق سن دو ہزار پانچ کے مقابلے میں اس روایت پر عمل درآمد میں تب تک نصف کمی آ چکی تھی۔ تاہم اس سروے میں شامل قریب چھ ہزار لڑکیوں میں سے بارہ فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں ’بریسٹ آئرننگ‘ کے عمل سے گزارا گیا تھا۔

ریناٹا نامی تنظیم کی ایک ترجمان کیتھرین ابا فاؤڈا کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ رواج ہمسایہ ممالک ٹوگو اور چاڈ میں بھی پایا جاتا ہے، ’’لیکن ان ممالک میں ابھی تک اسے ایک مسئلے کے طور پر دیکھا ہی نہیں جاتا۔ اور اگر کچھ لوگ ایسا سمجھتے بھی ہیں تو انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اس حوالے سے بات کہاں، کیسے اور کس کے ساتھ کی جائے کیوں کہ اس رواج کی ملکی ثقافت میں جڑیں بہت گہری ہیں۔‘‘

خواتین کی چھاتیوں کو پچکا دینے کا عمل مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے انجام دیا جاتا ہے۔ نڈونگ کی دادی بچیوں کی چھاتیوں پر گرم کُفچہ لگانے کے بعد دن میں تین مرتبہ سینے کی مالش کرتی تھیں تاکہ چھاتیوں کی نشو و نما روکی جا سکے۔

بعض علاقوں میں بچیوں کے سینے کو پلاسٹک کی کسی پٹی سے باندھ دیا جاتا ہے اور کچھ علاقوں میں لوگ پتھر کی مدد سے چھاتیوں کو دبا دیتے ہیں۔ لیکن ان سب ظالمانہ طریقوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ بچیوں کے پستان بڑے نہ ہوں اور جس قدر ممکن ہو، بدصورت لگیں۔

فاؤڈا کا مزید کہنا تھا، ’’شمال میں رہنے والی خواتین نے ہمیں بتایا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو چائلڈ میرج سے بچانے کے لیے ایسا کرتی ہیں۔ کیمرون کے مغرب اور وسط میں لوگ سوچتے ہیں کہ اگر لڑکی کی چھاتیوں کی نشو و نما اچھی ہو، تو لڑکی کی مجموعی جسمانی نشو و نما رک جاتی ہے۔ اس طرح کوئی بھی لڑکی اپنی زندگی میں کوئی بھی کام سیکھنے کے عمل سے دور ہو جاتی ہے کیوں اسے ہر وقت لڑکوں کی چبھتی ہوئی نظروں کا سامنا رہتا ہے۔‘‘

اسی طرح ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ چپٹے یا زیادہ سے زیادہ ہموار سینے لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ لیکن نڈونگ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس دردناک رواج کے خلاف جنگ میں دیرپا کامیابی کے لیے بچوں کو اس حوالے سے آگہی دینا بہت ضروری ہے تاکہ ان میں چھوٹی عمر سے ہی اس حوالے سے شعور پیدا ہو سکے۔

اس کلاس کی ٹیچر نکوڈو اولینگا کہتی ہیں، ’’یہ ابھی تیسری جماعت ہے لیکن کچھ بچوں میں ابھی سے جسمانی بلوغت کے آغاز کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ جنسی امور کے حوالے سے بات کرنا کیمرون میں آسان نہیں ہے اور اس طرح کی کھلی بحث بہت ہی کم ہوتی ہے۔‘‘

آج ان بچوں کو ذہن نشین کرایا گیا ہے کہ انہیں ’بریسٹ آئرننگ‘ کے خلاف مزاحمت کرنا ہے۔ انہیں سکھایا گیا ہے کہ ان بچیوں کی ’چھاتیاں انہیں کی ملکیت ہیں اور کسی کو بھی انہیں چھونے‘ کی اجازت نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Oct 2018, 6:01 AM