آسٹریلیا کے جنگل میں 3000 سال بعد پیدا ہوا ’تسمانیائی شیطان‘، سبھی حیران!

آسی آرک نے گزشتہ سال 26 تسمانیائی شیطان جوڑوں کو کھلے جنگل میں چھوڑا تھا تاکہ ان کی نسل کو دوبارہ زندگی مل سکے۔ اب بچوں کی پیدائش کے بعد اس نسل کی تعداد بڑھنے کے امکانات کو پنکھ لگ گئے ہیں۔

علامتی، تصویر آئی اے این ایس
علامتی، تصویر آئی اے این ایس
user

تنویر

آسٹریلیا کے نیو ساؤتھ ویلس واقع جنگل میں ایک ایسے مخلوق کی پیدائش ہوئی ہے جس کے دانت انتہائی خطرناک ہیں، پنجے کافی مضبوط ہیں اور اس میں کاٹنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ اس مخلوق کا نام تسمانین ڈیول یعنی تسمانیائی شیطان ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تسمانیائی شیطان کی پیدائش آسٹریلیائی جنگل میں کم و بیش 3000 سال بعد ہوئی ہے، اور اس خبر سے آسٹریلیا کے حیاتیاتی سائنسدانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ خبر سے لوگ حیران بھی ہیں کہ آخر ناپید ہو چکی اس نسل نے ہزاروں سال بعد کس طرح دنیا میں جنم لیا۔

سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق تسمانیائی شیطان کی نسل کو پھر سے زندگی دینے میں کامیابی مل رہی ہے۔ مویشی تحفظ کے لیے کام کرنے والے آسٹریلیائی این جی او آسی آرک کئی سالوں سے اس نسل کو بچانے میں مصروف ہیں۔ آسی آرک نے 24 مئی کو انسٹاگرام پوسٹ کے ذریعہ بتایا کہ آسٹریلیا کے نیو ساؤتھ ویلس واقع بیرنگٹن وائلڈ لائف سینکچوئری میں مادہ تسمانیائی شیطان نے بچوں کو جنم دیا ہے۔ ایسا مانا جا رہا ہے کہ 3 ہزار سال میں یہ پہلی بار ہے جب آسٹریلیا کے مین لینڈ جنگل میں اس نسل نے جنم لیا ہے۔


آسی آرک نے گزشتہ سال 26 تسمانیائی ڈیول جوڑوں کو کھلے جنگل میں چھوڑا تھا تاکہ ان کی نسل کو دوبارہ زندگی مل سکے۔ اب بچوں کی پیدائش کے بعد تسمانیائی شیطان کی تعداد بڑھنے کے امکانات کو پنکھ لگ گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تسمانیائی شیطان ’وائلڈ ڈاگ‘ کی نسل کا جانور ہے جو چہرے سے دیکھنے میں ہو بہو چوہے جیسا ہے، لیکن اس کے جسم کا سائز چھوٹے کتے کے برابر ہوتا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ تسمانیائی شیطان کو یہ نام اس کے خونخوار جبڑے، بڑے ناخونوں والے پنجے، حملہ کرنے اور کاٹنے کی خطرناک صلاحیت کی وجہ سے دیا گیا ہے۔

جنگلوں میں رہنے والے تسمانیائی شیطان کے تیزی سے مرنے پر حیاتیاتی سائنسدانوں نے 1990 کی دہائی میں جانچ شروع کی تھی۔ 1996 میں جب تک پتہ لگایا گیا کہ یہ نسل چہرے کے ٹیومر اور کینسر کی وجہ سے مر رہی ہے تب تک آسٹریلیا کے جنگلوں میں ان کی تعداد نہ کے برابر بچی تھی۔ جو بچے انھیں چڑیا خانوں اور مویشی اسپتالوں میں محفوظ کیا گیا۔ 2008 میں یو این ریڈ لسٹ میں اس نسل کو ناپید درجہ میں شامل کیا گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 May 2021, 4:40 PM