محمد یونس کی عبوری حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ، آئی ایم ایف نے بنگلہ دیش کو 800 ملین ڈالر کا قرض دینے سے کیا انکار

آئی ایم ایف کی جانب سے چھٹی قسط کے طور پر بنگلہ دیش کو تقریباً 800 ملین ڈالر یعنی 6 ہزار 720 کروڑ روپے ملنے کی امید تھی۔ لیکن اب یونس حکومت کو آئی ایم ایف قرض کی یہ قسط دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

<div class="paragraphs"><p>محمد یونس (فائل)، ویڈیو گریب</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بنگلہ دیش کی مشکلوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے اعلان کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے قرض کی چھٹی قسط تب تک جاری نہیں کرے گا جب تک ملک میں نئی حکومت تشکیل نہیں پا جاتی۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال تختہ پلٹ کے بعد ملک میں عبوری حکومت تشکیل دی گئی تھی۔ آئندہ سال انتخاب ہونے والا ہے، لیکن اس سے پہلے ہی آئی ایم ایف کی شرط نے بنگلہ دیش کو پس و پیش میں ڈال دیا ہے۔ 2022 میں عالمی معاشی دباؤ کے درمیان بنگلہ دیشی حکومت نے آئی ایم ایف سے مدد طلب کی تھی۔ جنوری 2023 میں آئی ایم ایف نے 4.7 ارب ڈالر کا قرض منظور کیا تھا، جس میں اضافہ کر کے بعد میں اسے 5.5 ارب ڈالر کر دیا گیا۔ اب تک بنگلہ دیش کو 5 قسطوں میں 3.6 ارب ڈالر قرض مل چکا ہے۔

آئی ایم ایف نے براہ راست محمد یونس کی عبوری حکومت کو قرض کی چھٹی قسط دینے سے انکار کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ اگلی قسط تبھی دی جائے گی جب نئی حکومت سے بات چیت ہوگی اور وہ موجودہ معاشی اصلاحی پروگرام کو جاری رکھنے کا عزم کرے گی۔ آئی ایم ایف کی اس چھٹی قسط کے طور پر بنگلہ دیش کو تقریباً 800 ملین ڈالر یعنی 6 ہزار 720 کروڑ روپے ملنے کی امید تھی۔ لیکن اب یونس حکومت کو آئی ایم ایف قرض کی یہ قسط دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔


آئی ایم ایف نے یہ کہتے ہوئے رقم جاری کرنے میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا ہے کہ اسے پہلے یہ یقینی بنانا ہے کہ بنگلہ دیش کی نئی حکومت کی پالیسیاں کیا ہوں گی اور کیا وہ موجودہ معاشی اصلاحات کے پروگرام کو جاری رکھے گی یا نہیں؟ ادارے کا ماننا ہے کہ جب تک نئی حکومت اپنے موقف اور عزم کو واضح طور پر پیش نہیں کرتی، تب تک اگلی قسط جاری کرنا جلدبازی ہوگی۔ آئی ایم ایف یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آنے والی حکومت پہلے جیسی معاشی پالیسیوں اور اصلاحوں کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے یا ان میں کوئی تبدیلی کرنے جا رہی ہے۔

حال ہی میں واشنگٹن میں منعقد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سالانہ میٹنگوں کے دوران بنگلہ دیش بینک کے گورنر ڈاکٹر احسان ایس منصور اور آئی ایم ایف کے درمیان ہوئی ایک میٹنگ میں یہ اطلاع دی گئی۔ گورنر کے مطابق یہ قسط بنیادی طور پر رواں سال دسمبر میں جاری کی جانی تھی، لیکن آئی ایم ایف نے واضح کر دیا ہے کہ انتخاب ہونے سے قبل تک وہ اس عمل کو آگے نہیں بڑھائے گا۔ گورنر منصور نے بنگلہ دیش کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی حالت مستحکم ہے اور ڈالر کی شرح بھی مستحکم بنی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کی پالیسی سپورٹ ہمارے لیے اہم ہے، لیکن فی الحال اگر قرض کی قسط نہیں بھی ملتی ہے، تو بھی ملک اپنی معاشی حالت کو سنبھال لے گا۔ اقتصادی مشیر ڈاکٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ اگر آئی ایم ایف سخت شرطیں عائد کرتا ہے، تو بنگلہ دیش انہیں قبول نہیں کرے گا۔ ملک اب پہلے جیسی معاشی بحران کی حالت میں نہیں ہے۔


یہ پہلا موقع نہیں ہے جب آئی ایم ایف نے ایسا دباؤ بنایا ہے، 2001 کے انتخاب سے قبل بھی اس نے اسی طرح کی حکمت عملی اپنائی تھی۔ اسی طرح 2022 میں بھی بنگلہ دیشی حکومت کو آئی ایم ایف کی شرطوں کے تحت ایندھن اورگیس کی قیمتیں بڑھانی پڑی تھیں۔ اس درمیان آئی ایم ایف کا ایک وفد 29 اکتوبر کو ڈھاکہ پہنچنے والا ہے تاکہ چھٹی قسط سے متعلق شرائط کا تجزیہ کر سکے۔ 2 ہفتہ تک چلنے والے اس سفر کے دوران نمائندہ ٹیم مختلف سرکاری تنظیموں سے ملاقات کرے گا اور بعد میں تشخیصی رپورٹ آئی ایم ایف کو سونپے گا۔ یہ رپورٹ طے کرے گی کہ چھٹی قسط جاری کی جائے گی یا نہیں۔ دوسری جانب بنگلہ دیش بینک کے ذرائع کے مطابق فی الحال ملک کا غیر ملکی زرمبادلہ کا ذخائر 32.14 ارب ڈالر کی سطح پر ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔