طالبان حکومت کے ذریعہ اقوام متحدہ کے دفاتر میں خواتین کے کام کرنے پر عائد پابندی باعث تشویش، اقوام متحدہ کا سخت انتباہ

اقوام متحدہ نے طالبان سے کہا کہ ’’اقوام متحدہ کے دفاتر میں افغان خواتین کے کام کرنے پر عائد پابندیوں کو ہٹائے۔ کیونکہ یہ پابندیاں انسانی خدمات کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ، تصویر آئی اے این ایس
i
user

قومی آواز بیورو

افغانستان کی طالبان حکومت اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے ہی خواتین پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ان پابندیوں میں سے ایک یہ ہے کہ طالبان حکومت نے خواتین کو اقوام متحدہ کے دفاتر میں بھی کام کرنے سے روک دیا ہے۔ اب اقوام متحدہ نے اس معاملے میں طالبان حکومت کو سخت وارننگ دے دی ہے۔ اقوام متحدہ نے اتوار (7 دسمبر) کو طالبان سے کہا کہ ’’اقوام متحدہ کے دفاتر میں افغان خواتین کے کام کرنے پر عائد پابندیوں کو ہٹائے۔‘‘ ساتھ ہی اقوام متحدہ نے کہا کہ یہ پابندیاں انسانی خدمات کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔

واضح رہے کہ 2021 میں اقتدار میں لوٹنے کے بعد سے ہی طالبان نے خواتین پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ان میں خواتین کو ملازمت کرنے، پارک میں جانے، بیوٹی سیلون اور 12 سال کی عمر کے بعد تعلیم حاصل کرنے پر روک کے علاوہ دیگر کئی پابندیاں شامل ہیں۔ رواں سال ستمبر میں جاری ہدایات کے مطابق افغان خاتون ملازمین اور ٹھیکیداروں کو پورے ملک میں اقوام متحدہ کے احاطے میں داخل ہونے سے روکا گیا ہے۔


افغانستان میں اقوام متحدہ کی خاتون ایجنسی کی خصوصی نمائندہ سوسان فرگیوسن نے کہا کہ تنظیم اپنی خواتین ملازمین کے بغیر بہتر طور سے کام نہیں کر سکتی ہے۔ انہوں نے ’اے ایف پی‘ کو دیے بیان میں کہا کہ ’’ہم افغان خواتین ملازمین اور ٹھیکیداروں پر اقوام متحدہ کے احاطے میں کام کرنے کے متعلق عائد کردہ پابندیوں کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جتنا زیادہ وقت تک یہ پابندی عائد رہے گی، زندگی بچانے کی خدمات کو اتنا ہی خطرہ لاحق رہے گا۔ طالبانی حکومت کی جانب سے عائد کی گئی پابندی مساوات اور انسانی حقوق کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کے افسران نے یہ نہیں بتایا کہ دفتر میں کتنی خواتین کام کرتی ہیں اور کتنی خواتین اس پابندی سے متاثر ہوئی ہیں۔ لیکن خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ نے بتایا کہ اس وقت سیکڑوں خاتون ملازمین کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اپنے کام کی اہمیت بتاتے ہوئے سوسان فرگیوسن نے کہا کہ ’’صرف افغان خاتون ملازمین کی مدد سے ہی وہ ان خواتین اور لڑکیوں تک پہنچ سکتی ہیں جنہیں امداد کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر خواتین ہی اقوام متحدہ کے دفتر میں کام نہیں کریں گی تو ایسا کر پانا ممکن نہیں ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔