2025 میں سعودی عرب نے 340 لوگوں کو دی موت کی سزا، ڈرگس سے منسلک ہے زیادہ تر معاملہ
رواں سال اب تک سعودی عرب میں 340 لوگوں کو موت کی سزا دی جا چکی ہے۔ اس سے قبل 2024 میں 338 لوگوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ سب سے زیادہ 232 لوگوں ڈرگس سے منسلک جرائم کے باعث پھانسی دی گئی ہے۔

سعودی عرب نے ایک بار پھر پھانسی دینے کے معاملوں میں دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال میں اب تک سعودی عرب میں 340 لوگوں کو موت کی سزا دی جا چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف حیران کرنے والا ہے بلکہ سعودی عرب کی اپنی تاریخ میں اب تک کی بلند ترین سطح بھی ہے۔ اس سے قبل 2024 میں 338 لوگوں کو پھانسی دی گئی تھی، جسے اس وقت کا ریکارڈ مانا گیا تھا، لیکن رواں سال وہ ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا۔
یہ نیا اعداد و شمار اس وقت سامنے آیا جب سعودی وزارت خارجہ نے تصدیق کی کہ مکہ میں پیر (15 دسمبر) کو قتل کے معاملے میں 3 قصورواروں کو پھانسی دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی مسلسل دوسرے سال سعودی عرب نے پھانسی کے معاملوں میں اپنا ہی ریکارڈ توڑ لیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور بین الاقوامی سطح پر سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔
اگر معاملوں کی بات کریں تو سب سے زیادہ پھانسی ڈرگس سے منسلک جرائم کے باعث دی گئی ہے۔ رواں سال اب تک دی گئی پھانسیوں میں سے تقریباً 232 کا تعلق ڈرگس کی اسمگلنگ یا اس سے منسلک جرائم سے ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی دلیل ہے کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق موت کی سزا صرف بہت سنگین جرائم جیسے جان بوجھ کر کیا گیا قتل تک محدود ہونا چاہیے۔ لیکن سعودی عرب میں ڈرگس معاملوں میں بھی بڑے پیمانے پر پھانسی دی جا رہی ہے۔
ڈرگس کے علاوہ دہشت گردی سے متعلق معاملات میں بھی کئی افراد کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ ان معاملے کے تحت دی گئی پھانسی پر بھی سعودی عرب کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے سب سے سنگین اور تشویشناک امر نابالغ سے منسلک معاملوں کو لے کر ہے۔ گزشتہ 2 ماہ میں 2 ایسے لوگوں کو بھی پھانسی دی گئی ہے، جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ جرائم کے وقت وہ نابالغ تھے۔ اسے بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی براہ راست خلاف ورزی سمجھا جا رہا ہے، جبکہ سعودی عرب اس معاہدہ پر دستخط کر چکا ہے۔ 2020 میں بین الاقوامی دباؤ کے بعدد سعودی حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ نابالغوں کو موت کی سزا نہیں دی جائے گی، لیکن اس کے باوجود ایسے معاملے سامنے آتے رہتے ہیں۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ’الکیسٹ‘ کا کہنا ہے کہ اب بھی کم از کم 5 ایسے قیدی ہیں جنہیں نابالغ ہونے کی حالت میں کیے گئے جرم میں کسی بھی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے۔ تنظیم کی محققہ نادین عبدالعزیز نے کہا کہ ’’سعودی عرب کا طرز عمل زندگی کے حق کے لیے سخت اور خطرناک نظر اندازی کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ نادین عبدالعزیز کے کئی معاملات میں ملزمان کو اعتراف جرم کرنے پر مجبور کیا گیا، ان کا منصفانہ ٹرائل نہیں ہوا اور پھر موت کی سزا سنا دی گئی۔
واضح رہے کہ غیر ملکی شہریوں کو بھی بڑی تعداد میں پھانسی دی گئی ہے، خاص طور پر ڈرگس سے متعلق معاملات میں۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے 2022 کے آخر میں ڈرگس کے معاملات میں پھانسی دوبارہ شروع کی تھی، جسے پہلے 3 سال کے لیے روک دیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق عالمی سطح پر سعودی عرب چین اور ایران کے بعد، گزشتہ 3 سالوں سے دنیا میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ پھانسی دینے والا ملک ہے۔ 2025 کے موجودہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ رواں سال یہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔