کووڈ ویکسین پر پھر اٹھا سوال، سائنسدانوں کے حیرت انگیز انکشاف نے دعووں کی کھول دی قلعی

سائنسدانوں کی نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ فائزر اور ماڈرنا کے ذریعہ بنائے گئے ایم آر این اے ٹیکوں نے یقینی طور پر سنگین بیماریوں کو روکا، لیکن مدافعتی تحفظ میں امید سے کہیں زیادہ تیزی سے کمی آئی ہے۔

کووڈ ٹیکہ۔ تصویر یو این آئی
i
user

قومی آواز بیورو

کورونا وائرس عالمی سطح پر صحت کے لیے سنگین مسائل کا سبب رہا ہے۔ سال 21-2020 کے دوران اس کا خوف ہم سب نے دیکھا تھا۔ حالانکہ وقت کے ساتھ اس کا اثر کم ہوتا چلا گیا اور اب یہ متعدی مرض فلو جیسا ایک عام انفیکشن بن کر رہ گیا ہے۔ کچھ ماہ کے وقفوں پر نئے ویرینٹ کے سبب انفیکشن کے معاملوں میں معمولی اضافہ ضرور ہوتا ہے، حالانکہ اس کا اثر بہت تیزی سے ختم بھی ہو جاتا ہے۔ اب جبکہ کورونا کا خطرہ کافی حد تک ختم ہو چکا ہے اور ہم سب 2019 سے قبل کی طرح پھر سے معمول کے مطابق زندگی گزارنے میں مصروف ہیں، تو ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ کیا لوگوں کو دی گئی کورونا ویکسین واقعی اتنی فائدہ مند تھی جتنی ہمیں بتائی گئی تھی؟ کیا یہ ٹیکے (ویکسین) محفوظ تھے؟

واضح ہو کہ دنیا میں کروڑوں لوگوں کو کورونا کے ٹیکے دیے گئے تھے، لیکن کچھ ماہ بعد ہی بوسٹر ڈوز کی بھی ضرورت پڑ گئی۔ تحقیقات کی بنیاد پر صحت کی تنظیموں نے بھی قبول کیا کہ گزرتے وقت کے ساتھ ویکسین کی تاثیر کم ہو جاتی ہے۔ اسی سے متعلق ایک حالیہ تحقیق میں سائنسدانوں نے ایک اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ’’کووڈ ویکسین کے متعلق جتنا دعویٰ کیا گیا تھا اصل میں یہ اس سے کہیں کم مؤثر ثابت ہوا ہے۔‘‘


ایک نئے تجزیہ میں سائنسدانوں قبول کیا ہے کہ کووڈ ٹیکہ اصل میں اتنا موثر ثابت نہیں ہوا جتنے کا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ 50 فیصد ٹیکوں کا اثر تیزی سے کم ہوتا دیکھا گیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کا دعویٰ ہے کہ دنیا کی زیادہ تر آبادی کو کورونا کے ٹیکے لگائے جا چکے ہیں۔ ان کے استعمال سے پہلے سال میں 1.44 کروڑ سے زائد اموات روکی بھی گئی تھیں، کچھ انداوزوں کے مطابق یہ تعداد 2 کروڑ کے قریب ہے۔ لیکن اب جاپانی سائنسدانوں کی نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ فائزر اور ماڈرنا کے ذریعہ بنائے گئے ایم آر این اے ٹیکوں نے یقینی طور پر سنگین بیماریوں کو روکا، لیکن مدافعتی تحفظ میں امید سے کہیں زیادہ تیزی سے کمی آئی ہے۔

متعدی مرض سے بچاؤ کے لیے لوگوں کو دی گئی کورونا ویکسین کتنی موثر ہے اور اس کا اثر کتنے عرصے تک جسم میں رہتا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے سائنسدانوں نے 2500 سے زائد لوگوں کے اینٹی باڈی ڈیٹا کو شامل کیا۔ ٹیم نے پایا کہ بوسٹر ڈوز کے 9 ماہ کے اندر تقریباً نصف لوگوں کی قوت مدافعت میں تیزی سے کمی آ گئی، اس گروپ میں کووڈ انفیکشن کی شرح بھی زیادہ تھی۔ ماہرین نے ان نتائج کو اہم قرار دیا اور کہا کہ لوگوں کو لمبے عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں مزید ’ذاتی نوعیت کی ویکسینیشن حکمت عملی‘ کی ضرورت ہے۔ سائنسدانوں نے یہ بھی کہا کہ یہ سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ ٹیکوں کی قوت مدافعت کے عمل میں اتنی تیزی سے کمی کی کیا وجہ ہے؟


قابل غور بات یہ ہے کہ ان ٹیکوں کے پیچھے کی جو تکنیک ہے وہ پہلی بار سال 2005 میں ایجاد ہوئی تھی، جب فائزر-بایونٹیک اور اور ماڈرنا کووڈ ٹیکوں کو سب سے پہلے بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا تھا۔ میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے پر مشتمل یہ ویکسین ایک جینیاتی بلیو پرنٹ پر مشتمل ہوتی ہے جو کہ خلیوں کو جسم میں پروٹین بنانے کی ہدایت کرتی ہے۔ روایتی ویکسین کے برعکس (جن میں زندہ یا کمزور وائرس کا استعمال ہوتا ہے) ایم آر این اے ٹیکے خلیات کو کووڈ اسپائک پروٹین کا ایک بے ضرر ورژن بنانے کا کوڈ دیتی ہے۔ یہ مدافعتی نظام کو وائرس کی شناخت اور حقیقی وائرس کا سامنا ہونے پر دفاع کرنے کے لیے تربیت دیتا ہے۔

’سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسن‘ کی رپورٹ میں ناگویا یونیورسٹی کی ٹیم نے لکھا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں میں بوسٹر ویکسینیشن کے بعد بھی طویل عرصے تک اینٹی باڈی کی سطح کافی نہیں دیکھی گئی ہے۔ ایسے میں بوسٹر ویکسینیشن کے بعد بھی ایسے لوگوں میں انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔ کورونا کے مزید انفیکشن سے بچاؤ کے لیے ہمیں ’اضافی بوسٹر خوراک‘ یا یہاں تک کہ الگ سے ’اینٹی باڈی تھراپی‘ دینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ کووڈ کے بعد کے دور میں، ساتھ ہی مستقبل میں ہونے والی وبائی امراض کے دوران، ان افراد پر اضافی بوسٹر خوراک کے اثرات کا جائزہ لینا اہم ہوگا، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں ویکسینیشن کے بعد کی قوت مدافعت تیزی سے کم ہو گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔