ایران میں حجاب کی مخالفت تیز، پولیس مظاہرین پر پیلٹ گن سے کر رہی حملہ، گرفتار 31 افراد ہلاک، انٹرنیٹ بند

مہسا امینی کی موت کے بعد ایرانی خواتین بڑی تعداد میں سڑک پر نکل کر حجاب کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہیں، کئی خواتین اپنا حجاب اتار کر لہرا رہی ہیں، انھیں پھینک رہی ہیں، جلا رہی ہیں۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

ایران میں 16 ستمبر کو مہسا امینی کی زیر حراست موت کے بعد شروع ہوا ہنگامہ دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ لازمی حجاب سے متعلق قانون کے خلاف جاری مظاہروں میں صرف خواتین ہی نہیں، مرد بھی شامل نظر آ رہے ہیں۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہو رہی ہیں اور مظاہرین پر پولیس کے ذریعہ پیلٹ گن یعنی چھروں والی بندوق سے حملہ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے تشدد میں کچھ ہلاکتوں کی خبریں سامنے آ چکی ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اس درمیان نیوز ایجنسی اے ایف پی نے ایک این جی او کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہوئے احتجاجی مظاہروں پر ایرانی سیکورٹی فورسز کے ذریعہ کی گئی کارروائی میں کم از کم 31 شہری مارے گئے ہیں، جنھیں موریلٹی پولیس کے ذریعہ گرفتار کیا گیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ ایران پولیس نے 13 ستمبر کو مہسا امینی کو سڑک پر سے اس لیے گرفتار کر لیا تھا کیونکہ اس نے ایرانی قانون کے مطابق حجاب نہیں پہنا ہوا تھا۔ گرفتاری کے تین دن بعد یعنی 16 ستمبر کو اس کی موت ہو گئی۔ جیسے ہی یہ خبر پھیلی، ایران میں جگہ جگہ ’ایرانی مورل پولیس‘ کی بربریت کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ حالانکہ پولیس انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس پر کوئی ظلم نہیں ہوا، اور گرفتاری کے بعد ہی اس کی طبیعت خراب ہو گئی۔ بعد ازاں اسے اسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں وہ کوما میں چلی گئی۔ بعد ازاں کوما میں ہی اس کی موت ہو گئی۔


اس درمیان مہسا کے والد امجد امینی نے بی بی سی سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ’’پولیس اور حکومت صرف جھوٹ بول رہی ہے۔ میں بیٹی کی جان بخشنے کے لیے ان کے سامنے گڑگڑاتا رہا۔ جب میں نے اس کی لاش کو دیکھا تو وہ پوری طرح چھپایا ہوا تھا۔ صرف چہرہ اور پیر نظر آئے۔ پیروں پر بھی چوٹ کے نشان تھے۔‘‘

مہسا امینی کی موت کے بعد ایرانی خواتین بڑی تعداد میں سڑک پر نکل کر حجاب کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہیں۔ کئی خواتین اپنا حجاب اتار کر لہرا رہی ہیں، انھیں پھینک رہی ہیں، جلا رہی ہیں۔ شدید مظاہروں سے خوفزدہ حکومت نے انٹرنیٹ بھی بند کر دیا ہے۔ مظاہروں میں شامل بیشتر خواتین اسکول و کالج کی طالبات ہیں جو سڑکوں پر حکومت کو کھلا چیلنج پیش کر رہی ہیں۔ تہران سمیت 15 شہروں میں مذہبی لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور لازمی حجاب سے متعلق قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔


میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک ایک ہزار سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کے باوجود ملک کے ہر بڑے شہر میں مورل پولیسنگ اور حجاب کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ ایران کی ایک خاتون صحافی نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر پوسٹ کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح مظاہرین پولیس کے پیلٹ گن حملوں میں زخمی ہو رہے ہیں۔ چھروں سے لوگوں کے جسم زخمی ہو رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔