برطانیہ میں وزرا کے استعفوں کا سیلاب، وزیر اعظم بورس جانسن بھی عہدے سے دستبردار ہونے کو تیار

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بورس جانسن استعفی دے بھی دیں گے تو بھی وہ اکتوبر تک وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رہیں گے، جب تک نئے وزیر اعظم کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔

بورس جانسن، تصویر آئی اے این ایس
بورس جانسن، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

لندن: برطانیہ میں جاری سیاسی بحران کے دوران دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم بورس جانسن نے استعفی دے دیا ہے۔ برطانوی نیوز پورٹل ’اسکائی نیوز‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم بورس جانسن مستعفی ہو گئے ہیں۔ تاہم بی سی سی سمیت دوسرے میڈیا اداروں نے کہا کہ وزیر اعظم بورس جانسن ابھی مستعفی نہیں ہوئے ہیں وہ صرف عہدے سے دستبردار ہونے کو تیار ہو گئے ہیں۔ بعد میں اسکائی نیوز نے اپنی رپورٹ میں ترمیم کرتے ہوئے یہی کہا کہ جانسن عہدہ چھوڑنے کو تیار ہو گئے ہیں۔

خیال رہے کہ بورس جانسن کی سیاسی جماعت کنزرویٹیو پارٹی کو اپنے ہی لیڈران کی بغاوت کا سامنا ہے اور اب تک پارٹی کے 41 وزرا مستعفی ہو چکے ہیں۔ بورس جانس پر بھی استعفی کا دباؤ ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بورس جانسن استعفی دے بھی دیں گے تو بھی وہ اکتوبر تک وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رہیں گے، جب تک نئے وزیر اعظم کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔


بورس جانسن کی کرسی پر بحران اس وقت شروع ہوا تھا جب 5 جولائی کو وزیر خزانہ ریشی سونک نے استعفی دے دیا تھا۔ اس کے بعد وزیر صحت ساجد جاوید بھی مستعفی ہو گئے۔ تاحال 4 کابینی وزیر بھی مستعفی ہو چکے ہیں ان میں ریشی سونک اور ساجد جاوید کے علاوہ سائمن ہارٹ اور برینڈن لوئس شامل ہیں۔

بورس جانسن کے خلاف بغاوت کرس پنچر کو چیف وہپ مقرر کئے جانے کے بعد ہوئی تھی۔ دراصل کرس پنچر پر جنسی استحصال کے الزام ہیں۔ ایک برطانوی اخبار نے 30 جون کو دعویٰ کیا تھا کہ کرس پنچر نے دو لوگوں کو قابل اعتراض طریقہ سے چھوا تھا۔ اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد کرس پنچر نے استعفیٰ دے دیا۔ تاہم ان کی ہی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کا الزام تھا کہ جانسن کو کرس پر عائد الزامات کا علم تھا اس کے باوجود انہوں نے ان کی تقرری کی۔


بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دو دنوں کے اندر چار کابینی وزرا، 22 وزرا، پارلیمنٹ کے 22 ذاتی سکریٹری اور 5 دیگر اہم عہدوں پر فائز افراد نے استعفی دے دیا۔ بورس جانس کی کرسی اس سے پہلے ’پارٹی گیٹ‘ کے سامنے آنے کے بعد بھی بحران کی زد میں آ گئی تھی اور ان کے خلاف پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش کی گئی تھی، تاہم اس وقت ان انہوں نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا تھا۔

پارٹی گیٹ کا معاملہ گزشتہ سال سامنے آیا تھا۔ تب برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ 2020 میں کورونا کے سخت لاک ڈاؤن کے باوجود جانسن پارٹی کر رہے تھے۔ اس پارٹی میں 30 لوگ شامل ہوئے تھے جبکہ اس وقت لاک ڈاؤن کے سبب کسی بھی تقریب میں صرف دو افراد کو ہی شریک ہونے کی اجازت تھی۔ لاک ڈاؤن کے اصولوں کی خلاف ورزی پر جانسن پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا اور انہوں نے پارٹی میں معذرت بھی کی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔