اٹلی میں برقع پر پابندی کی ہو رہی تیاری، پارلیمنٹ میں بل پیش، کنوارہ پن کی جانچ پر بھی لگے گی روک

برادرس آف اٹلی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ گیلیجو بگنامی کے مطابق اس بل کو لانے کا مقصد سبھی طرح کی شورش پسندی کو ختم کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم اٹلی میں ایک سماج بنانا چاہتے ہیں‘‘

علامتی تصویر / آئی اے این ایس
i
user

قومی آواز بیورو

اٹلی میں برقع پر پابندی عائد کرنے کے لیے پیش رفت ہو چکی ہے۔ اس سلسلے میں جارجیا میلونی کی حکومت بہت جلدی میں دکھائی دے رہی ہے۔ میلونی کی پارٹی ’برادرس آف اٹلی‘ نے پارلیمنٹ میں اس تعلق سے بل بھی پیش کر دیا ہے۔ صرف برقع پر پابندی کے لیے ہی نہیں، کنوارہ پن کی جانچ کرائے جانے پر بھی پابندی لگانے کا راستہ ہموار کیا گیا ہے۔ میلونی حکومت کا کہنا ہے کہ برقع پر پابندی کے لیے بل پیش کرنے کا فیصلہ اسلامی علیحدگی پسندی کو ختم کرنے کے مقصد سے لیا گیا ہے۔

’دی سن‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بل کے نافذ ہوتے ہی برقع پہننے پر پابندی لگ جائے گی۔ اگر اس کے بعد بھی اسکولوں اور دکانوں سے لے کر دفاتر اور یونیورسٹیوں تک عوامی مقامات پر برقع یا نقاب کوئی پہنتا ہے، تو اس پر 3 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ برادرس آف اٹلی کے رکن پارلیمنٹ گیلیجو بگنامی کے مطابق اس بل کو لانے کا مقصد سبھی طرح کی شورش پسندی کو ختم کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم اٹلی میں ایک سماج بنانا چاہتے ہیں۔ متوازی سماج کا قیام اٹلی میں نہ ہو، یہی ہماری کوشش ہے۔‘‘


’برادرس آف اٹلی‘ پارٹی کی ہی ایک رکن پارلیمنٹ اینڈریا ڈیلوماسٹرو نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’فرانس سے ہم نے ترغیب حاصل کی ہے۔ سبھی لوگ یہاں ایک جیسے رہیں گے۔ مذہبی آزادی ضروری ہے، لیکن اطالوی ریاستوں کے اصول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘‘ بل پیش کرنے والی سارا کیلونی کا کہنا ہے کہ ’’شریعہ قانون کو اطالوی قانون سے اوپر نہیں رکھا جا سکتا۔ مذہبی آزادی عوامی مقامات کے لیے نہیں ہے۔ آپ عوامی مقامات پر اٹلی کے قانون کو مانیے۔‘‘

اس درمیان کنوارہ پن کی جانچ کا معاملہ بھی سرخیوں میں ہے۔ اٹلی میں کچھ سالوں سے یہ معاملہ اٹھ رہا ہے۔ اٹلی میں کنوارہ پن کا ٹیسٹ کرانا مسلم لڑکیوں میں شادی سے پہلے ایک چلن ہے، جس میں 2 فنگر ٹیسٹ کرایا جاتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت اسے جرم مانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اٹلی کی جارجیا میلونی حکومت نے کنوارہ پن کے ٹیسٹ کو ممنوع قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔