پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار افغانستان سے مایوس وطن واپس لوٹے!
پاکستان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی اور اس کے رہنماؤں کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اسحاق ڈار کے دورہ کابل کے بعد بھی مہاجرین اور ٹی ٹی پی کے مسائل حل طلب رہے۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تلخی کے درمیان پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے گزشتہ ہفتے کابل کا دورہ کیا۔ اس دوران کئی معاملات پر مذاکرات ہوئے لیکن طالبان نے ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان اور سیکیورٹی کے معاملے پر پڑوسی ملک کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی پاکستان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ یہی نہیں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی نے بھی کسی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
دی ٹریبیون ویب سائٹ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ حقانی کے عزم کے بغیر پاکستان خیبر پختونخوا یا بلوچستان میں ترقی نہیں کر سکتا۔ تاہم پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ اسحاق ڈار کے دورے سے دو طرفہ تجارت اور دیگر سیاسی معاملات پر بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
پاکستان اور افغانستان نے ایک مشترکہ رابطہ کمیٹی (جے سی سی) تشکیل دی ہے، جہاں گزشتہ ماہ ٹی ٹی پی اور دیگر سیکیورٹی امور پر ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ تاہم جب تک حقانی فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ نہیں بنتے، سنگین نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔
افغان دارالحکومت کابل میں ایک ذریعہ نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا، "اگر اسلام آباد کو سیکورٹی کی بنیاد پر کسی تبدیلی کا احساس نہیں ہوتا ہے، تو ہمیں خدشہ ہے کہ سرحد پار سے پاکستان کی طرف سے کوئی بھی حملہ اس کی تمام کوششوں کو ختم کر سکتا ہے۔"
وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب تقریباً دو ماہ قبل دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ جنگ کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی کیونکہ افغانستان کی جانب سے طورخم بارڈر پر نئی پوسٹ کی تعمیر پر تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔ پاکستان اسے اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کا استعمال ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی دہشت گردی کے حملوں کے لیے زیادہ سے زیادہ افغان شہریوں کو بھرتی کر رہی ہے۔ دہشت گردانہ حملوں میں ملوث کچھ افغان افغان طالبان رہنماؤں کے قریبی رشتہ دار تھے۔ پاکستان نے طالبان حکومت سے کہا کہ ٹی ٹی پی کا مسئلہ حل کیے بغیر تعاون کی گنجائش بہت کم ہوگی۔ (بشکریہ نیوز پورٹل ’اے بی پی‘)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔