غزہ جنگ بندی منصوبہ سامنے آتے ہی اسرائیل کو ملی خوشخبری، ملٹری ایکسپورٹ سے پابندی ہٹی
حماس و غزہ کے درمیان شروع ہوئی جنگ کے بعد چانسلر فریڈرک میرج نے اگست کے شروع میں کہا تھا کہ برلن آئندہ حکم تک اسرائیل کو کسی بھی فوجی سامان کی برآمد کی اجازت نہیں دے گا جو غزہ میں استعمال ہو سکتا ہے۔

غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہوئی پیش رفت کے بعد جرمنی نے اسرائیل کے تعلق سے ایک اہم فیصلہ کیا ہے۔ جرمنی نے اسرائیل پر فوجی ساز و سامان فروخت کرنے سے متعلق عائد پابندی کو ہٹا لیا ہے۔ جرمن حکومت نے پیر کے روز اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کو فوجی آلات کی برآمدات پر عائد اپنی پابندیاں ہٹا رہی ہے۔ یہ اعلان اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی ہونے کے چند ہفتوں بعد سامنے آیا ہے۔
حماس اور غزہ کے درمیان شروع ہوئے تنازعہ کے بعد چانسلر فریڈرک میرج نے اگست کے شروع میں کہا تھا کہ برلن اسرائیل کو کسی بھی ایسے فوجی ساز و سامان کے برآمد کی اجازت نہیں دے گا جو غزہ میں استعمال ہوسکتا ہو۔ یہ فیصلہ اسرائیلی کابینہ کے غزہ سٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کے اقدام کے جواب میں لیا گیا تھا۔
میرج کے ترجمان سیباسچن ہیلے نے بتایا کہ یہ پابندیاں 24 نومبر سے ہٹا دی جائیں گی۔ ہیلے نے باقاعدہ سرکاری پریس بریفنگ میں کہا کہ ’’10 اکتوبر سے غزہ میں جنگ بندی نافذ ہے اور صورتحال مستحکم ہو چکی ہے۔ اسی وجہ سے یہ فیصلہ لیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم امید کرتے ہیں تمام فریق اُن معاہدوں پر عمل کریں گے جن پر اتفاق کیا گیا ہے، جس میں جنگ بندی برقرار رکھنا، بڑے پیمانے پر انسانی امداد فراہم کرنا اور عمل کو منظم انداز میں جاری رکھنا شامل ہے۔‘‘ ہیلے نے کہا کہ پابندیاں ہٹنے کے بعد جرمنی فوجی برآمدات کا الگ الگ بنیاد پر جائزہ لے گا، جیسا کہ ایسے معاملات میں اس کی عمومی پالیسی ہے۔
اگرچہ اسرائیل اور جرمنی کے درمیان تعلقات مضبوط ہیں اور جرمنی اسرائیل کا بڑا اتحادی سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود جرمنی اُن ممالک میں شامل ہوگیا تھا جنہوں نے اسرائیل کا اتحادی ہونے کے باوجود برآمدات روک دی تھیں۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گِدیون سار نے پیر کو اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ وہ دیگر حکومتوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ جرمنی کی طرح فیصلہ کریں۔
قابل ذکر ہے کہ اسرائیل اپنی فوجی ضروریات کا تقریباً 70 فیصد حصہ امریکہ سے حاصل کرتا ہے، جو دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ برآمد کرنے والا ملک ہے۔ جرمنی اسرائیل کا دوسرا سب سے بڑا سپلائر ہے۔ اٹلی تیسرے نمبر پر ہے، جو اسرائیل کی فوجی ضروریات کا ایک فیصد سے بھی کم فراہم کرتا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، 2019 سے 2023 کے درمیان اسرائیل کی مجموعی دفاعی درآمدات کا 30 فیصد حصہ جرمنی نے فراہم کیا تھا۔ جرمنی کی جانب سے برآمد کیے گئے فوجی آلات میں زیادہ تر بحری ساز و سامان شامل تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔