عراق: ایک سال کے تعطل کے بعد نئی حکومت تشکیل

مہینوں کی تلخ تکرار اور داخلی انتشار کے بعد عراقی قانون سازوں نے بالآخر ایک حکومت کی تشکیل کی اجازت دے دی۔ نئے وزیر اعظم محمد شیعہ السودانی کو تاہم متعدد سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔

عراق: ایک سال کے تعطل کے بعد نئی حکومت تشکیل
عراق: ایک سال کے تعطل کے بعد نئی حکومت تشکیل
user

Dw

عراقی پارلیمنٹ نے جمعرات کو وزیر اعظم محمد شیعہ السودانی کی سربراہی میں 21 رکنی نئی کابینہ کی اپنی منظوری دے دی۔ گزشتہ سال کسی نتیجے کے بغیر ووٹنگ کے بعد مختلف شیعہ دھڑوں کے درمیان شدید اختلافات کی وجہ سے پارلیمان سیاسی تعطل کا شکار ہو گئی تھی۔

نئے وزیر اعظم نے جمعرات کے روز ووٹنگ کے بعد کہا، "ہماری وزارتی ٹیم ایک ایسے نازک دور میں ذمہ داری نبھائے گی جس میں دنیا زبردست سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں اور تنازعات کا مشاہدہ کر رہی ہے۔"

السودانی کون ہیں؟

نئے وزیر اعظم 52 سالہ السودانی کا تعلق ایران نواز کوارڈینیشن فریم ورک پارلیمانی دھڑے سے ہے جو مقبول عالم دین مقتدی الصدر کی ہدایت پر الگ ہو جانے والے قانون سازوں پر مشتمل مخالف شیعہ بلاک کے بعد اس وقت پارلیمان میں سب سے بڑا گروپ ہے۔

السودانی مصطفیٰ الکاظمی سے اقتدار سنبھال رہے ہیں، جو ملک میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہروں کی وجہ سے مشکل حالات اور قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کے بعد عبوری وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس تازہ پیش رفت سے بھی سیاسی تعطل سے پید ہونے والی عوامی ناراضی میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے۔ عوام اس صورت حال کو بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے طور پر دیکھتے ہیں۔

السودانی نے پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے کہا، کہ "بدعنوانی کی وبا، جس نے زندگی کے تمام پہلووں کو متاثر کر دیا ہے، وہ کورونا وبا سے زیادہ مہلک ہے اور بہت سے معاشی مسائل، ریاست کی عملداری کو کمزور کرنے، غربت، بے روزگاری اور ناقص عوامی خدمات میں اضافہ کا سبب بنی ہے۔"

عراق کے نئے وزیراعظم کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟

عراق برسوں سے تنازعات اور بدانتظامی کا شکار ہے۔ حالیہ سیاسی تعطل نے اس کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔ رواں برس کا ملکی بجٹ بھی منظور نہیں ہوسکا ہے جب کہ تیل سے ہونے والی آمدنی بھی کافی متاثر ہوئی ہے۔ ملازمتوں اور عوامی خدمات کی کمی، جس نے حکومت مخالف مظاہروں کو جنم دیا،وہ مزید بدتر ہو گئے ہیں۔

مقتدی الصدر اور ان کے پیروکاروں کی مخالفت نے چیلنجز میں اضافہ کر دیا ہے۔ شیعہ عالم دین پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں اپنے ہزاروں حامیوں کو سڑک پر لانے میں کامیاب رہے تھے۔ لیکن جب اس سے مقصد حل نہیں ہوسکا تو انہوں نے پارلیمان کی عمارت پر کئی مرتبہ دھاوا بولا اور اس پر قبضہ بھی کرلیا۔

بالخصوص محنت کش طبقات کے علاقے، جسے صدر سٹی کے نام سے جانا جاتا ہے، میں مقتدی الصدر کی مقبولیت اور السودانی کے قریبی اتحادی اور سابق وزیر اعظم نوری المالکی کے خلاف ان کے رویے سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ عراق کے کمزور سیاسی نظام میں خلل ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔