ایران-اسرائیل تنازعہ: ’ٹرمپ کے بعض مطالبات ایران نے تسلیم کر لیے‘، مغربی سفارت کار کا دعویٰ

سفارت کار نے اخبار کو مطلع کیا کہ تہران نے مکمل انکار کی پوزیشن سے ہٹتے ہوئے اب ’انتہائی لچک دار‘ انداز میں کچھ مطالبات پر گفتگو کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>علی خامنہ ای اور ڈونالڈ ٹرمپ (فائل)</p></div>

علی خامنہ ای اور ڈونالڈ ٹرمپ (فائل)

user

قومی آواز بیورو

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری میزائل و ڈرون حملے کو آج ایک ہفتہ مکمل ہو گیا۔ گزشتہ جمعہ کو ہی اسرائیل نے پہلی مرتبہ ایران پر حملہ کیا تھا، اور اس کے بعد ایران نے جوابی حملہ کیا۔ پھر دونوں ہی طرف سے حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، جو کہ اب تک جاری ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ آئندہ 2 ہفتوں کے اندر ایران سے متعلق کوئی فیصلہ لینے والے ہیں۔ اس دوران ایک مغربی سفارت کار نے اخبار ’اسرائیل ٹوڈے‘ کو بتایا کہ ایران نے واشنگٹن کو کچھ امریکی مطالبات پر رضامندی کا جواب بھیجا ہے۔

سفارت کار نے اخبار کو مطلع کیا کہ تہران نے مکمل انکار کی پوزیشن سے ہٹتے ہوئے اب ’انتہائی لچک دار‘ انداز میں کچھ مطالبات پر گفتگو کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔ تاہم اس کے باوجود ایران اب بھی اسرائیلی جنگ بندی کو کسی بھی مذاکرات سے قبل ایک لازمی شرط قرار دے رہا ہے۔ اخبار کے مطابق بعض دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا آغاز فوجی کارروائیوں کے جاری رہنے کے باوجود ہو سکتا ہے۔


یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیویٹ نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں اسرائیل و ایران تنازع اور ممکنہ امریکی مداخلت سے متعلق صحافیوں کے سوالات کے جواب دیے۔ انھوں نے زور دیا کہ صدر ٹرمپ حتمی فوجی فیصلے سے پہلے سفارتی کوششوں کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، اور یہ کہ ایران کے ساتھ کسی بھی معاہدے میں یورینیم افزودگی شامل نہیں ہونی چاہیے۔ انھوں نے واضح کیا کہ ایران کو لازماً یہ معاہدہ کرنا ہو گا۔

کیرولائن لیویٹ نے یہ بھی کہا کہ صدر ٹرمپ آئندہ دو ہفتوں کے دوران یہ فیصلہ کریں گے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری اس تصادم میں امریکہ مداخلت کرے گا یا نہیں۔ انھوں نے صدر ٹرمپ کے پیغام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس بنیاد پر کہ مستقبل قریب میں ایران کے ساتھ مذاکرات کی بڑی گنجائش ہے... جو ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی، میں آئندہ 2 ہفتوں میں فیصلہ کروں گا کہ مداخلت کرنی ہے یا نہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہے کہ ایران کبھی جوہری ہتھیار حاصل نہ کر سکے۔ لیویٹ نے یہ بھی وضاحت کی کہ کسی بھی معاہدے میں ایران کو یورینیم افزودگی سے روکنا ہوگا اور اس کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو ختم کرنا ہوگا۔


لیویٹ نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’’صدر ہمیشہ سفارتی حل میں دل چسپی رکھتے ہیں... اس لیے اگر سفارت کاری کا کوئی موقع ملا، تو صدر اسے ضرور اپنائیں گے... لیکن وہ طاقت کے استعمال سے بھی نہیں گھبراتے۔‘‘ تاہم، لیویٹ نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ صدر ٹرمپ ایران پر کسی ممکنہ حملے کے لیے کانگریس سے اجازت طلب کریں گے یا نہیں۔

یہ بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب تین سفارت کاروں نے انکشاف کیا کہ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے درمیان گزشتہ ہفتے اسرائیلی حملوں کے آغاز سے اب تک متعدد مرتبہ ٹیلیفون پر بات چیت ہوئی ہے، تاکہ بحران کا سفارتی حل تلاش کیا جا سکے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ان مذاکرات میں مئی کے آخر میں ایران کو پیش کی گئی ایک امریکی تجویز پر مختصر تبادلہ خیال بھی ہوا، جس کا مقصد ایران کے باہر یورینیم افزودگی کے لیے ایک علاقائی کنسورٹیم قائم کرنا تھا۔ تاہم ایران اس پیشکش کو اب تک مسترد کرتا رہا ہے۔ سفارت کاروں نے برطانوی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ عراقچی نے کہا ہے کہ ایران اُس وقت تک مذاکرات دوبارہ شروع نہیں کرے گا جب تک اسرائیل 13 جون سے جاری حملے بند نہیں کرتا۔

(بشکریہ ’العربیہ‘)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔