شیخ حسینہ کی سزائے موت پر ہندوستانی رد عمل

ہندوستان نے کہا کہ ایک قریبی پڑوسی کے طور پر، وہ بنگلہ دیش کے عوام کی بھلائی، امن، جمہوریت، شمولیت اور استحکام کے لیے پرعزم ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

کل یعنی پیر کو بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی ایک عدالت نے ایک اہم اور تاریخی فیصلہ سنایا۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے ملک کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات میں مجرم قرار دیا۔ اس فیصلے سے بنگلہ دیش میں سیاسی ہلچل مچ گئی۔ ہندوستان سمیت پڑوسی ممالک میں اس کے باہمی تعلقات اور سیاست پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں بحث شروع ہو گئی ہے۔

شیخ حسینہ طویل عرصے سے جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک نمایاں شخصیت رہی ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی اور استحکام کے خلاف جنگ میں بنگلہ دیش کی شبیہ کو مضبوط کیا۔ ان کے دور حکومت میں، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سیکورٹی، بارڈر مینجمنٹ اور تجارت جیسے مسائل پر تعلقات مضبوط ہوئےہیں۔ اب اس عدالتی فیصلے سے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نیا چیلنج درپیش ہے۔


ہندوستان نے اس معاملے پر بہت پرسکون انداز اپنایا ہے۔ وزارت خارجہ نے کہا کہ ہندوستان نے عدالت کے فیصلے کو نوٹ کیا ہے۔ ہندوستان ہمیشہ بنگلہ دیش کے لوگوں کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتا ہے۔ ہندوستان نے یہ بھی کہا کہ وہ امن، جمہوریت اور ہم آہنگی میں ترقی کی راہ کو ضروری سمجھتا ہے اور بنگلہ دیش کی حمایت جاری رکھے گا۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کسی ایک پارٹی یا فرد کے ساتھ نہیں بلکہ پورے بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ ہندوستان کا موقف ہے کہ وہ ہر کسی کے ساتھ بات چیت میں مشغول رہے گا اور حالات کو بہتر بنانے کی سمت کام کرے گا۔


اس فیصلے سے بنگلہ دیشی سیاست میں تناؤ بڑھنے کا خدشہ ہے۔ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ نے اسے سیاسی سازش قرار دیا ہے اور اب وہ اعلیٰ عدالت میں اپیل کرے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ بنگلہ دیش کے اندر ماحول کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔

ہندوستان نے واضح کیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے لوگوں کے محفوظ اور پرامن مستقبل کی حمایت جاری رکھے گا۔ دونوں ممالک سیاسی صورتحال سے قطع نظر سرحدی مسائل، سلامتی، دریائی پانیوں اور تجارت سمیت متعدد امور پر مل کر کام کرتے رہیں گے۔


بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے زوال کا ہندوستان کے ساتھ بنگلہ دیش کے تعلقات پر خاصا اثر پڑا۔ حسینہ کے 15 سالہ دور میں ہندوستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات بہترین تھے۔ دونوں ممالک نے باہمی اعتماد، تجارت اور سلامتی میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ تاہم، جب 2024 کے وسط میں ان کی حکومت گر گئی، بنگلہ دیش میں نئی ​​عبوری حکومت نے ان تعلقات کی نوعیت اور نوعیت بدل دی۔

جولائی-اگست 2024 میں، جب بنگلہ دیش میں طلباء کے احتجاج اور عوامی غصے میں اضافہ ہوا، شیخ حسینہ کی حکومت گر گئی۔ اس کے بعد نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں ایک عبوری حکومت قائم ہوئی۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)اور اسلام پسند گروپوں نے اس نئی حکومت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نئی حکومت کی تشکیل سے ہندوستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں چیلنجز پیدا ہو گئے۔ یونس حکومت کا نقطہ نظر شیخ حسینہ سے مختلف تھا۔ سرحد پر سیکورٹی تعاون کمزور ہوا، دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی میں کمی آئی اور ہندوستان کو سرحد سے متعلقہ معاملات میں پہلے جیسی ترجیح نہیں دی گئی۔


بنگلہ دیش کا استحکام ہندوستان کے لیے اہم ہے - چاہے وہ تجارت ہو، سرحدی حفاظت ہو یا دہشت گردی کا مقابلہ۔ اس لیے ہندوستان تعلقات کو برقرار رکھنے اور بات چیت کو برقرار رکھنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ سیاسی تبدیلی کے درمیان، ہندوستان کو دونوں ملکوں کے درمیان امن اور اعتماد کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی سفارت کاری کو بہت احتیاط سے چلانا ہوگا۔

شیخ حسینہ اس وقت ہندوستان میں جلاوطن کی زندگی گزار رہی  ہیں۔ انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کو ایک سازش قرار دیا ہے اور نئی حکومت پر بنیاد پرست قوتوں کو فروغ دینے کا الزام لگایا ہے۔ بنگلہ دیش میں 2026 میں انتخابات متوقع ہیں جو مستقبل کے واقعات کا تعین کریں گے۔ ہندوستان کا اب سب سے بڑا چیلنج اس نئے سیاسی ماحول میں اپنے اقتصادی، سلامتی اور ثقافتی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔