ہنگری میں یوکرینی باشندوں کا تو خیر مقدم لیکن افغان طالب علم ملک بدر

یوکرین پر روسی حملے کے بعد ہنگری نے ہزارہا یوکرینی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دیں جبکہ دیگر پناہ گزینوں کو سربیا کے میدان میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

ہنگری میں یوکرینی باشندوں کا خیر مقدم، افغان طالبعلم ملک بدر
ہنگری میں یوکرینی باشندوں کا خیر مقدم، افغان طالبعلم ملک بدر
user

Dw

یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے اس کے پڑوسی ممالک اور دیگر یورپی ریاستوں نے یوکرینی پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحدیں کھولتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں یوکرینی باشندوں کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دی۔ انہیں ضروری امدادی اشیا فراہم کی جا رہی ہیں اور ان کے لیے بہتر پناہ گاہوں کا بندوبست بھی کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ایک افغان طالب علم جس نے گزشتہ برس افغانستان میں سیاسی افراتفری پھیلنے کے بعد ہنگری میں سیاسی پناہ کی درخواست دی، اُس کی درخواست کو نا صرف بوداپیسٹ حکام نے مسترد کیا بلکہ چھ ماہ قبل اُسے ہنگری سے ملک بدر کر کے سربیا کی سرحد میں دھکیل دیا گیا۔

افغان طالب علم کی کہانی

حسیب قاری زادہ ایک افغان طالب علم ہے۔ اُس نے مشرقی یورپی ملک ہنگری آکر تین سال تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں اپنے آبائی ملک میں تازہ سیاسی افراتفری اور عدم استحکام کے پیش نظر اُس نے ہنگری میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کروائی۔ ہنگری کے حکام نے اُسے سیاسی پناہ دینے کی بجائے ملک سے نکال کر سربیا کی سرحد کے اندر دھکیل دیا۔ سربیا اس افغان نوجوان کے لیے بالکل انجان ملک ہے جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتا۔ حسیب قاری زادہ نے سریبا کے دارالحکومت بلغراد میں خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ''پولیس آئی، اُس نے مجھے ہتھکڑیاں لگائیں اور کہا احمق انسان بھاگنے کی کوشش نہ کرو۔ ہم سے لڑنے کی کوشش نہ کرو، کچھ نہ کرو۔‘‘

بوسنیا میں پھر قوم پرست اور اشتعال انگیزی کے خطرات

قاری زادہ کو سربیا کے ایک میدان میں بالکل تنہا چھوڑ دیا گیا جہاں میلوں تک کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ 25 سالہ قاری زادہ کو کچھ علم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں، انہوں نے کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے؟ وہ کہتے ہیں، ''میں ایک طالب علم تھا، انہوں نے میری زندگی کو بالکل گھما کر رکھ دیا۔ انہوں نے مجھے میرے کپڑے، میرا فون، چارجر، لیپ ٹاپ یا کوئی اور اہم چیز جس کی مجھے سفر کے دوران ضرورت ہو، نہیں لینے دی۔‘‘ حسیب قاری زادہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو مزید بتایا کہ انہیں نہ تو سربیا کی زبان، نہ ہی اُس کے جغرافیہ اور ثقافت کا کوئی علم تھا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے ہنگری کی پولیس سے قاری زادہ کی ملک بدری کے حوالے سے ردعمل دینے کی درخواست کی تاہم پولیس کی طرف سے کوئی جوابی بیان یا رد عمل سامنے نہیں آیا۔یورپ میں عوامیت پسندانہ اجانب دشمنی کے تیز پھیلاؤ پر تشویش

ہنگری کا پناہ گزینوں کے ساتھ ناروا سلوک

ہنگری اس بارے میں مشہور ہے کہ غربت اور جنگ کے شکار معاشروں سے آنے والے پناہ کے متلاشی افراد کے ساتھ یہ ملک بہت بہیمانہ سلوک کرتا ہے۔ افغان طالب علم کی ہنگری سے جلا وطنی کا کیس اس لیے بھی سنگین تھا کہ وہ کسی غیر قانونی راستے یا طریقے سے نقل مکانی کر کے نہیں آیا تھا بلکہ اپنے اخراجات پر طالب علم کی حیثیت سے بوداپیسٹ میں رہ رہا تھا۔

اُس نے افغانستان کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر اس لیے سیاسی پناہ کے لیے درخواست دی تھی کہ اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اُس کی فیملی اب اُس کی یونیورسٹی کی فیس ادا نہیں کر سکتی اور اس طرح وہ ہنگری میں اپنے رہائشی اجازت نامے کی تجدید نہیں کرواسکتا۔ اس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ہنگری کے حکام نے اس حقیقت کو سرے سے نظر انداز کیا کہ اس کے آبائی وطن افغانستان کو کسی طور محفوظ ملک نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ قاری زادہ نے اے پی کو بتایا کہ اُس کے خاندان والوں کے افغانستان کی سابقہ حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ اب طالبان حکومت کے خوف سے اُس کے گھر والے گھر سے باہر تک نہیں نکلتے۔ دریں اثناء ہیلسنکی کی ایک وکلاء کمیٹی حسیب قاری زادہ کا کیس ہنگری کی عدالتوں اور یورپی عدالت برائے انسانی حقوق تک لے کر گئی ہے۔ ان وکلاء کا استدلال یہ ہے کہ قاری زادہ کی ہنگری سے ملک بدری غیر قانونی اور انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کے خلاف ہے۔ ہنگری کی انسانی حقوق کی ہیلسنکی کمیٹی کی سینیئر لیگل آفیسر زولٹ سیکیرس کے مطابق قاری زادہ کا کیس دونوں جگہ زیر غور ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ہنگری کی ایک عدالت نے قاری زادہ کے حق میں فیصلہ دیا ہے اور اب وکلا ہنگری کی اتھارٹیز کے ساتھ قانونی جنگ لڑ رہے ہیں کہ کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے اور حسیب قاری زادہ کو سربیا سے واپس ہنگری آنے کی اجازت دی جائے۔ لیگل آفیسر زولٹ سیکیرس کے بقول، ’’قاری زادہ نے سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی، وہ یہاں رہ رہا تھا اور اُسے تحفظ چاہیے تھا اور اُسے حتمی طور پر ہنگری سے باہر نکال دیا گیا، اُسے کبھی اپنے حالات کی وضاحت پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔‘‘

’جرمنی مہاجرین کی پناہ گاہوں کے تحفظ میں ناکام ہو رہا ہے‘

یوکرین: پالتو جانور بھی پناہ کے متلاشی؟

دائیں بازو کی انتہا پسندی کا کھلا مظاہرہ

کئی دیگر ممالک کی طرح وزیر اعظم وکٹور اوربان کی قیادت میں ہنگری میں دائیں بازو کی انتہا پسندی کی جڑیں مضبوط تر ہوتی جا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم عناصر نے پہلے ایسے کیس کی نشاندہی 2017 ء میں کی تھی۔ تب ایک 16 سالہ کُرد ٹین ایجر کو، جس کا تعلق عراق سے تھا، ہنگری سے سربیا ملک بدر کر دیا گیا تھا جبکہ وہ ابتدائی طور پر رومانیہ سے ہنگری میں داخل ہوا تھا۔ واپس اپنے ملک بھیجے جانے سے پہلے تاہم وہ آسٹریا پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ ابھی حال ہی میں افریقی ملک کیمرون سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون جو رومانیہ سے ہنگری میں داخل ہوئی تھی اُسے بھی گزشتہ دسمبر میں سربیا کے میدان میں دھکیل دیا گیا تھا۔ ایک اور افریقی خاتون دُبئی سے ہوائی جہاز کے ذریعے ایک سال قبل ہنگری پہنچی تھی اُس کا انجام بھی سربیا کا میدان بنا جہاں اُسے ملک بدر کر کے اس کے ملک واپس بھیج دیا گیا۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک سرب وکیل نیکولا کواسیوچ کے بقول، ''بدقسمتی سے یہ معمول بن چُکا ہے۔‘‘ ایک اور ملک اس معاملے میں ہنگری کے نقش قدم پر چل رہا ہے وہ ہے یورپی ملک کروشیا۔ یورپی یونین کے رکن ملک کروشیا پر بھی تارکین وطن کے خلاف تشدد کے الزامات ہیں تاہم اس نے یوکرینی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں بلایا ہے اور انہیں کروشیا میں پناہ لینے کی اجازت دی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔