جی-20 سربراہی اجلاس میں ٹوٹی ایک روایت، امریکی بائیکاٹ کے باوجود اعلامیہ پاس، نریندر مودی نے بھی اجلاس سے کیا خطاب
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جی-20 اجلاس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں کیونکہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل موسمیاتی اقدامات اور توانائی کی منتقلی کا موضوع امریکی پالیسی سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

جنوبی افریقہ کے جوہانسبرگ میں منعقد جی-20 سربراہی اجلاس میں شامل ممالک نے ماحولیاتی تبدیلی پر ایک تاریخی اعلامیہ پاس کیا ہے۔ جی-20 ممالک کے گروپ کی جانب سے اعلامیہ پر امریکہ کی مخالفت اور بائیکاٹ کے باوجود متفقہ طور پر فیصلہ لیا گیا ہے۔ جی-20 گروپ کی جانب سے اٹھائے گئے اس قدم کو روایت سے ہٹ کر قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ جی-20 میں شامل پوری دنیا کے لیڈران نے ماحولیاتی تبدیلی کے متعلق امریکہ کی غیرموجودگی میں ایک مشترکہ اعلامیہ منظور کیا ہے۔
واضح رہے کہ جوہانسبرگ میں منعقد جی-20 سربراہی اجلاس کا امریکہ نے بائیکاٹ کیا ہے۔ اس کے پیچھے میزبان جنوبی افریقہ کے ساتھ امریکہ کے سفارتی اختلافات کو وجہ قرار دیا گیا ہے۔ خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے کہا کہ امریکہ نے مشترکہ اعلامیہ کے الفاظ پر اعتراض کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کو لے کر منظور شدہ اعلامیہ پر پھر سے بات چیت نہیں کی جا سکتی ہے۔ صدر رامافوسا کے اس بیان سے واشنگٹن اور پریٹوریہ کے درمیان جاری تلخی سامنے آ گئی ہے۔
دراصل ماحولیاتی تبدیلی کی اصطلاح کا شامل کیا جانا عمومی طور پر صدر ٹرمپ کے لیے ایک ہلکی مگر واضح تنقید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو بارہا اس سائنسی اتفاقِ رائے پر سوال اٹھا چکے ہیں کہ عالمی حدت کا بنیادی سبب انسانی سرگرمیاں ہیں۔ بہت سے مبصرین کے نزدیک اعلامیے کی زبان اس بات کی دانستہ کوشش تھی کہ شریک ممالک، امریکہ کے سابقہ شبہات کے باوجود، موسمیاتی سائنس کے تئیں اپنی وابستگی کا اعادہ کریں۔
واضح رہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی بھی جی-20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے جنوبی افریقہ کے سہ روزہ دورے پر ہیں۔ انہوں نے اجلاس میں شمولیتی اور پائیدار ترقی کے موضوع پر خطاب کیا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر نریندر مودی نے اس تعلق سے لکھا کہ ’’میں نے جوہانسبرگ، جنوبی افریقہ میں جی-20 سربراہی اجلاس سے خطاب کیا، جس کا محور شمولیتی اور پائیدار ترقی تھا۔ اب صحیح وقت ہے کہ ہم اپنے ترقیاتی پیمانوں پر دوبارہ غور کریں اور ایسی ترقی پر توجہ دیں جو شمولیتی بھی ہو اور پائیدار بھی۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔