سردی کا ستم! افغانستان میں لاکھوں لوگوں کو بھوک کے بحران کا سامنا، ڈبلیو ایف پی کی رپورٹ میں انکشاف

اقوام متحدہ کے مطابق بین الاقوامی امداد کے بغیر افغانستان کی یہ سردی صرف ٹھنڈ کا موسم نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کے لیے زندگی کا سب سے سخت امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر اے آئی</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

افغانستان میں سردی کا موسم زندگی اور موت کی جنگ بن چکی ہے۔ جیسے جیسے درجہ حرارت میں کمی آ رہی ہے، ویسے ویسے ملک کے کروڑوں لوگوں کے سامنے بھوک، نقصِ تغذیہ اور اور بے بسی کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ کئی خاندانوں کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے کھانا نہیں ہے اور مجبوری میں وہ اپنے بچوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگانے کو مجبور ہو رہے ہیں۔

ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق رواں سال سردیوں میں حالات عام سالوں کے مقابلے میں بہت زیادہ خوفناک ہونے والے ہیں۔ افغانستان میں سردی لمبی اور بے رحم ہوتی ہے۔ دسمبر اور جنوری کا ماہ افغانستان میں پہلے سے ہی بچوں کی موت کے لحاظ سے سب سے خطرناک مانا جاتا ہے۔ کئی علاقوں میں سردی 6 ماہ تک رہتی ہے۔ ایسے میں بھوک، سردی اور بیماری کا یہ خطرناک امتزاج لاکھوں لوگوں کی جان کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔


افغانستان موجودہ وقت دہائیوں کے سب سے بڑے غذائی بحران سے گزر رہا ہے۔ شدید خشک سالی نے کسانوں کی فصلیں برباد کر دی ہیں۔ بارش پر منحصر گیہوں کی کھیتی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ پھل اور سبزیوں کی پیداوار بھی بھاری نقصان میں ہے۔ انار، انجیر، شہتوت، خربوزے اور تربوز جیسی فصلیں پانی کی کمی اور سرحدوں کے بند ہونے کی وجہ سے بازاروں تک نہیں پہنچ پا رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسانوں کی آمدنی میں ریکارڈ کمی آئی ہے۔ کئی علاقوں میں کسان گزشتہ سال کے مقابلے 80 سے 90 فیصد تک اپنی آمدنی کھو چکے ہیں۔ اس سے دیہی معیشت مکمل طور سے تباہ ہو چکی ہے۔

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں 1.7 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو شدید خوراک کے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یعنی ملک کی تقریباً ایک تہائی آبادی کو روزانہ کا کھانا حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ ان میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ آنے والے مہینوں میں تقریباً 49 لاکھ خواتین اور بچوں کو نقصِ تغذیہ (غذائی قلت کی وجہ سے ہونے والی بیماری) کے علاج کی ضروت پڑے گی۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی مدد میں بھاری تخفیف کے سبب ایسا پہلی بار ہے جب سردیوں میں کوئی بڑی عالمی خوراک مہم افغانستان میں نہیں چل پا رہی ہے۔


ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کو رواں سردی میں سب سے کمزور 60 لاکھ لوگوں تک خوراک پہنچانے کے لیے 46.8 کروڑ روپے کی فوری ضرورت ہے، فی الحال تنظیم کو سردیوں کے لیے صرف 12 فیصد ہی فنڈ مل پایا ہے۔ وسائل کی کمی کے باعث ڈبلیو ایف پی کو پہلے ہی ایک کروڑ لوگوں کے لیے امداد بند کرنی پڑی ہے۔ کچھ علاقوں میں برفباری سے پہلے ہی محدود مقدار میں خوراک کی ذخیرہ اندوزی کی گئی ہے، لیکن یہ ضرورت کے مقابلے بہت کم ہے۔ جیسے ہی برف گرتی ہے پہاڑی علاقوں کے گاؤں مکمل طور پر منقطع ہو جاتے ہیں اور وہاں تک پہنچنا کئی ماہ تک ناممکن ہو جاتا ہے۔

جن خاندانوں کو خوراک کی امداد نہیں مل پا رہی ہے، ان میں سے تقریباً 90 فیصد خاندان منفی اور خطرناک طریقوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ لوگ اپنے گھر کے سامان، کھیتی کرنے والے آلات اور مویشیوں تک کو فروخت کر چکے ہیں۔ بچوں کو اسکول سے نکال کر کام پر بھیجا جا رہا ہے۔ سب سے تشویشناک صورتحال خواتین اور لڑکیوں کی ہے۔ کئی خاندان مجبوری میں اپنی بیٹیوں کی کم عمری میں ہی شادی کر رہے ہیں، تاکہ انہیں بوجھ کم لگے اور بدلے میں کچھ پیسے یا راشن مل سکے۔ یہ سماجی بحران افغان معاشرے کو اندر سے توڑ رہا ہے۔


حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین میں نقصِ تغذیہ کے معاملے گزشتہ سال کے مقابلے میں 30 فیصد تک بڑھ چکے ہیں۔ یہ واضح اشارہ ہے کہ مائیں خود بھوکی رہ کر بچوں کو کھلانے کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن طویل عرصہ تک ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا اور اس کا اثر ماں اور بچے دونوں کی صحت پر پڑتا ہے۔ ملک کے وسطی اور پہاڑی علاقوں میں سردیوں کے دوران صحت کے مراکز تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ کئی خواتین اور بچے گھنٹوں پیدل چکر کلنک پہنچتے ہیں، لیکن وہاں پہنچنے پر انہیں کھالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے کیونکہ امداد کے وسائل ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔

صورتحال تب اور بگڑ گئی جب پاکستان اور ایران سے لاکھوں افغان مہاجرین کو جبراً واپس بھیجا گیا۔ گزشتہ 2 سال میں تقریباً 48 لاکھ لوگ ملک لوٹے ہیں، جو افغانستان کی کل آبادی کا تقریباً 10 فیصد ہے۔ ان خاندانوں کی آمدنی کا اہم ذریعہ بیرون ملک سے بھیجا جانے والا پیسہ تھا، جو اب مکمل طور سے بند ہو چکا ہے۔ اچانک اتنی بڑی آبادی کے لوٹنے سے خوراک، روزگار اور صحت کی خدمات پر بھاری دباؤ پڑ گیا ہے۔


ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے زیادہ تر تقسیمِ مراکز تک خواتین کی رسائی ہو رہی ہے۔ پورے ملک میں ہزاروں مراکز پر خواتین خود آ کر خوراک کی امداد لیتی ہیں، خاص کر بیوائیں اور اکیلی مائیں۔ لیکن وسائل کی کمی کے باعث ہر ضرورت مند تک پہنچ پانا ممکن نہیں ہو پا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق بین الاقوامی امداد کے بغیر افغانستان کی یہ سردی صرف ٹھنڈ کا موسم نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کے لیے زندگی کا سب سے سخت امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔