چین نے ایک ہی خاندان کے 16 لوگوں کو پھانسی اور 11 لوگوں کو سنائی عمر قید کی سزا
مِنگ خاندان کے 39 ممبران میں سے 11 کو موت کی سزا، 5 کو 2 سال کی معطلی کے ساتھ موت کی سزا، 11 کو عمر قید اور باقی کو 5 سے 24 سال تک کی سزا سنائی گئی ہے۔

چین نے ایک ہی روز میں ایک ہی خاندان کے 16 لوگوں کو پھانسی، یعنی موت کی سزا سنا دی ہے۔ چین کی ایک عدالت نے پیر (29 ستمبر) کو میانمار میں فراڈ سنٹر چلانے والے ایک بدنام خاندان کے خلاف یہ کارروائی کی ہے۔ خاندان کے درجنوں ممبران مجرمانہ سرگرمیوں کے قصوروار پائے گئے، جن میں کئی کو طویل قید کی سزا دی گئی ہے۔ مِنگ خاندان ان 4 قبیلوں میں سے ایک کے لیے کام کرتا تھا، جنہوں چین کی سرحد کے پاس میانمار کے چھوٹے سے قصبے ’لاؤکینگ‘ کو جوئے، ڈرگس اور دھوکہ دہی کا مرکز بنا دیا تھا۔ 2023 میں میانمار نے کارروائی کرتے ہوئے ان خاندانوں کے کئی ممبران کو گرفتار کر چین کو سونپ دیا۔ اس کے بعد اب چین نے خاندان کے خلاف سخت کارروائی کی ہے۔ مِنگ خاندان کے کُل 39 ممبران کو پیر کو چین کے مشرقی شہر ’وینزو‘ میں سزا سنائی گئی۔
مِنگ خاندان کے 39 ممبران میں سے 11 کو موت کی سزا، 5 کو 2 سال کی معطلی کے ساتھ موت کی سزا، 11 کو عمر قید اور باقی کو 5 سے 24 سال تک کی سزا سنائی گئی ہے۔ عدالت نے پایا کہ 2015 سے مِنگ خاندان اور بقیہ جرائم پیشہ گروہ ٹیلی کام فراڈ، غیرقانونی کیسینو، ڈرگس کی اسمگلنگ اور جسم فروشی جیسی سرگرمیوں میں شامل تھے۔ عدالت کے مطابق ان کے جوئے اور دھوکہ دہی کے کاروبار سے 10 ارب یوآن (تقریباً 1.4 ارب ڈالر) کی کمائی ہوئی۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ ان خاندانوں کے کیسینو ہر سال کئی ارب ڈالر کا لین دین کرتے تھے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ مِنگ خاندان اور بقیہ گروہ فراڈ کے کئی مراکز میں مزدوروں کی موت کے ذمہ دار تھے۔ ایک واقعہ میں تو انہوں نے چین واپس لوٹنے سے روکنے کے لیے مزدوروں پر گولی چلا دی تھی۔ شروعات میں یہ کاروبار چین میں جوئے کی زیادہ مانگ کو پورا کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا، کیونکہ چین اور پڑوسی ممالک میں جوا غیرقانونی ہے۔ آہستہ آہستہ ’لاؤکینگ‘ کے کسینے منی لانڈرنگ، اسمگلنگ اور دھوکہ دہی کے مراکز میں تبدیل ہو گئے۔ انہیں اقوام متحدہ نے ‘اسکینڈیمک‘ کا انجن روم کہا ہے، جس میں 1 لاکھ سے زائد غیر ملکی شہریوں (زیادہ تر چینی) کو دھوکہ دہی کے مراکز میں پھنسا کر قید کر لیا جاتا تھا اور ان سے آن لائن فراڈ کے لیے طویل عرصہ تک کام کرایا جاتا تھا۔
واضح ہو کہ مِنگ خاندان کبھی میانمار کی ’شان ریاست‘ کے سب سے طاقتور خاندانوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے لاؤکینگ میں کم از کم 6 ہزار مزدورں کو فراڈ سنٹر میں رکھا تھا۔ ان میں سب سے زیادہ بدنام ’کراوچنگ ٹائگر وِلا‘ تھا، جہاں مزدوروں کو مسلسل جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ 2 سال قبل باغی گروپوں کے اتحاد نے ایک بڑا حملہ کر میانمار کی فوج کو ’شان ریاست‘ کے بڑے حصوں سے بھگا دیا اور لاؤکینگ پر قبضہ کر لیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چین جس کا ان گروپوں پر کافی اثر ہے اس نے اس حملے کو ہری جھنڈی دی تھی۔ منگ خاندان کے سربراہ مِنگ زوچانگ نے مبینہ طور پر خودکشی کر لی، جبکہ بقیہ ممبران کو چین کے حوالے کر دیا گیا۔ کچھ نے عدالت میں افسوس کا اظہار بھی کیا۔ فراڈ سنٹر میں کام کرنے والے ہزاروں لوگوں کو بھی پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ چین نے سخت سزاؤں کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنی سرحد پر دھوکہ دہی کے کاروبار سے سختی سے نمٹے گا۔ بیجنگ کے دباؤ میں تھائی لینڈ نے بھی رواں سال میانمار کی سرحد پر واقع فراڈ سنٹر پر کارروائی کی۔ پھر بھی یہ کاروبار اپنے طریقے بدل چکا ہے۔ اب اس کا بڑا حصہ کمبوڈیا میں چل رہا ہے، حالانکہ میانمار میں بھی یہ جاری ہے۔