برطانیہ نے تارکین وطن سے متعلق بنائی سخت پالیسی، ہندوستانیوں پر پڑے گا منفی اثر!
برطانیہ میں 430000 غیر یورپی تارکین وطن ہیں جن میں سب سے زیادہ ہندوستانی ہیں۔ برطانیہ میں رہنے والے ہندوستانی اپنی شہریت نہیں چھوڑنا چاہتے ہیں۔
کچھ سال قبل کی بات ہے، برطانیہ میں رہنے والی پاکستانی تارک وطن کی بیٹی شبانہ محمود ’فری فلسطین‘ کے پوسٹر لے کر اسرائیل مخالف ریلیوں میں شامل ہوتی تھیں۔ وہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کی سخت ناقد تھیں۔ لیکن آج شبانہ محمود ایک بالکل مختلف خاتون ہیں۔ وہ اب برطانیہ کی حکمراں سینٹر لیفٹ لیبر پارٹی کی ہوم سکریٹری (ہندوستان میں وزیر داخلہ کے مساوی) ہیں۔ انہوں نے 17 نومبر کو پارلیمنٹ میں حکومت کی نئی سخت پناہ کی پالیسی کا بھرپور دفاع کیا۔ یہ پالیسی پناہ گزینوں کی حیثیت کو عارضی بناتی ہے، اپیل کے عمل کو محدود کر دیا گیا ہے اور سرکاری فنڈنگ ختم کر دی گئی ہے۔ یہ پالیسی ان ممالک پر ویزا پابندیوں کی دھمکی دیتی ہے جو اپنے شہریوں کو واپس نہیں لیتے۔
شبانہ محمود کے اس منصوبہ پر ان کی پارٹی کے ہی رہنماؤں نے تنقید کی ہے۔ اسے ڈسٹوپیئن، شرمناک اور اخلاقی طور پر غلط قرار دیا ہے۔ جبکہ دائیں بازو کے سیاست دانوں اور کارکنوں نے کھل کر ان کی تعریف کی ہے جو کہ برطانیہ کی پہلی مسلم ہوم سکریٹری کے لیے غیر معمولی ہے۔ کچھ دائیں بازو کے رہنماؤں نے انہیں بہادر، مضبوط اور یہاں تک کہ ’بلیو‘ (کنزرویٹو پارٹی کا رنگ) بھی کہا ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کے رہنما کیمی بیڈینوک نے کہا کہ یہ قدم محمود کا شروعاتی قدم ہے جو کہ کافی مثبت ہے۔
واضح رہے کہ برطانوی حکومت کے نئے منصوبے 2019 میں ڈنمارک میں نافذ کیے گئے منصوبوں جیسے ہیں۔ ان منصوبوں کے تحت مہاجرین 20 سال تک برطانیہ میں رہنے کے بعد ہی مستقل طور پر آباد ہو سکتے ہیں۔ ان کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیا جائے گا اور اگر ان کے آبائی ممالک کو محفوظ سمجھا جاتا ہے تو انہیں ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال یہ مدت 5 سال ہے۔ موجودہ پناہ کے نظام میں کئی بار اپیل کرنے کی اجازت ہے جسے محمود ختم کرنا چاہتی ہیں۔ وہ انسانی حقوق کے قوانین میں ترمیم کر کے خاندانی زندگی یا غیر انسانی سلوک پر مبنی پناہ کے دعوے کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ حکومت اے آئی کا استعمال کر کے پناہ کا مطالبہ کرنے والوں کی عمر کی تصدیق کرے گی، خاص طور پر وہ لوگ جو نابالغ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ جعلی دستاویزات کے استعمال کو روکنے کے لیے ہندوستان کے آدھار کارڈ کی طرح ڈیجیٹل شناختی کارڈ بھی نافذ کرنا چاہتی ہیں۔
برطانوی ہوم سکریٹری ایک قانونی التزام بھی ہٹانے جا رہی ہیں، جس کے تحت مہاجرین کو ٹیکس دہندگان سے مالی امداد ملتی تھی۔ جن لوگوں کے پاس جائیداد ہے، انہیں اب اپنے رہنے کے اخراجات خود پورے کرنے ہوں گے۔ یہ ڈنمارک کے ماڈل کی طرح ہے، جہاں ضرورت پڑنے پر افسران کو مہاجرین کے اثاثے ضبط کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ برطانیہ میں ہجرت کئی دہائیوں پرانا مسئلہ ہے لیکن حالیہ برسوں میں فرانس سے انگلش چینل عبور کرنے والی چھوٹی کشتیوں میں آنے والے تارکین وطن نے سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ رواں سال کے پہلے نصف میں 43000 افراد اس خطرناک راستے سے پہنچے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے۔ ان مہاجرین میں سے زیادہ تر افغانستان، ایران، اریٹیریا، سوڈان اور شام سے آئے تھے۔
اگر ہندوستانیوں کی بات کی جائے تو بہت کم ایسے ہیں جو چھوٹی کشتی کے راستے سے برطانیہ پہنچے ہیں۔ زیادہ تر ہندوستانی طالب علم یا ورک ویزا پر آتے ہیں۔ برطانیہ میں پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہندوستانیوں کی تعداد تقریباً ایک فیصد ہے جب کہ پاکستانیوں کے لیے یہ تعداد 10 گنا زیادہ ہے۔ برطانیہ کی صحت کی خدمات تقریباً پوری طرح ہندوستانی ڈاکٹروں اور نرسوں پر منحصر ہے۔ ہائی اسکلڈ ویزا کے لیے بھی ہندوستانی سرفہرست ہیں۔ جیسے جیسے تارکین وطن کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ضروری خدمات کو متاثر کرتی ہے، حکومت اب قانونی امیگریشن پر بھی سختی کر رہی ہے۔ حکمراں لیبر پارٹی سمیت مین اسٹریم پارٹیاں دائیں بازو کی ریفارم یو کے پارٹی کے جیسی پالیسیاں اپنا رہی ہیں۔
شبانہ محمود مستقل رہائش گاہ (آئی ایل آر) کے لیے درخواست کی مدت 5 سال سے بڑھا کر 10 سال کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ ریفارم یو کے پارٹی تو آئی ایل آر ہی ختم کرنا چاہتی ہے، تاکہ اس کی غیر موجودگی میں تارکین وطن کی سرکاری خدمات تک رسائی ختم ہو جائے۔ برطانیہ میں 430000 غیر یورپی تارکین وطن ہیں جن میں سب سے زیادہ ہندوستانی ہیں۔ برطانیہ میں رہنے والے ہندوستانی اپنی شہریت نہیں چھوڑنا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر مستقبل میں آئی ایل آر یا سرکاری خدمات کو ختم کر دیا جاتا ہے، تو ان ہندوستانیوں کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ہندوستانی اب برطانوی پاسپورٹ حاصل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ قانونی ورک ویزا پر آنے والے ہندوستانی پیشہ ور افراد کو اب مستقل رہائش کے لیے 5 سال انتظار کرنا پڑے گا۔ برطانیہ میں ملازمتوں اور مستقل مستقبل کی امید رکھنے والے ہندوستانی طلبہ کے لیے بھی راستہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
قابل ذکر ہے برطانیہ میں بڑھتی ہوئی امیگریشن نے جنوبی ایشیائی باشندوں کے خلاف نسل پرستی میں بھی اضافہ کر دیا ہے جس سے ہندوستانی براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ ایک ہندوستانی نژاد خاتون کی عصمت دری کی گئی تھی، جس کے بارے میں پولیس کا کہنا تھا کہ یہ نسل پرستی سے متاثر تھا۔ اس سے قبل ایک سکھ خاتون کے خلاف جنسی تشدد نے تارکین وطن میں بڑے پیمانے پر غصے کو جنم دیا تھا، جس کے بعد برطانیہ میں نسلی جرائم کو روکنے کے لیے کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ گاندھی جینتی سے چند روز قبل لندن میں گاندھی کے مجسمے کی توڑ پھوڑ کی گئی تھی، اسے بھی نفرت انگیز جرم سمجھا گیا تھا۔
شبانہ محمود نے خود پارلیمنٹ میں بتایا کہ انہیں بھی اکثر نسل پر مبنی گالیاں دی گئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں گالی دی گئی اور کہا گیا کہ ’پاکستانی، اپنے ملک واپس جاؤ۔‘ وہ کہتی ہیں کہ مہاجرین کا بحران برطانیہ کو تقسیم کر رہا ہے، جو دائیں بازو آج ان کی تعریف کر رہے ہیں، وہی آگے موقع ملتے ہی ان پر حملہ کریں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔