بنگلہ دیش میں کل پھر تشدد کا اندیشہ، ’جولائی واریئرز‘ نے 3 نکاتی مطالبات کے مدنظر شاہراہوں کو بند کرنے کا کیا اعلان
بنگلہ دیش میں ’جولائی جودھا سنسد‘ (جولائی واریئرز) نے 19 اکتوبر کو اپنے 3 نکاتی مطالبات کو لے کر پورے ملک میں تمام شاہراہوں کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

بنگلہ دیش میں ایک بار پھر سیاسی بحران اور تشدد کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ جولائی چارٹر پر دستخط کو لے کر ہوئی کشیدگی کے درمیان بنگلہ دیش میں ’جولائی جودھا سنسد‘ (جولائی واریئرز) نے اپنے 3 نکاتی مطالبات کو لے کر پورے ملک میں تمام شاہراہوں کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق جولائی واریئرز کے مطالبات میں جولائی 2024 کے مظاہرے کے درمیان مارے گئے لوگوں کو ریاست کے ذریعہ تسلیم کرنا، زخمیوں کو ’جولائی واریئرز‘ کے طور پر تسلیم کرنا، مہلوکین کے اہل خانہ کی بازآبادکاری کے لیے ایک مخصوص روڈ میپ اور زخمیوں کو قانونی تعاون فراہم کرنا شامل ہے۔
نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) اور 4 بائیں بازو کی پارٹیوں سمیت کئی سیاسی پارٹیوں کے بائیکاٹ کے درمیان، عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس، قومی اتفاق رائی کمیشن کے کارکنان اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈران نے 17 اکتوبر کو جولائی چارٹر پر دستخط کیا۔ ڈھاکہ میں ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے ’جولائی جودھا سنسد‘ گروپ کے مرکزی منتظم مسعود رانا نے پارلیمانی احاطہ کے پاس مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہوئے تصادم کے بعد جمعہ شام کو ناکے بندی کا اعلان کیا تھا، جہاں انہوں نے جولائی چارٹر پر دستخط کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔
بنگلہ دیشی روزنامہ ’جونگاتور‘ نے مسعود کے حوالے سے کہا کہ ’’ہم پر حملہ کیا گیا ہے۔ ہم پر ہوئے حملہ کے خلاف احتجاج کرنے اور اپنے 3 نکاتی مطالبات کو پورا کرنے کے لیے اتوار (19 اکتوبر) کو دوپہر 2 بجے سے شام 5 بجے تک ہر ضلع اور شہر کے شاہراہوں پر ناکہ بندی کی جائے گی۔‘‘ ساتھ ہی مسعود نے پرامن مظاہرہ پر پولیس کے ذریعہ حملہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم پارلیمنٹ کے گیٹ کے سامنے پرامن طور پر مظاہرہ کر رہے تھے۔ انتظامیہ کے افسران نے ہم سے بات کی تھی اور ہم نے انہیں یقین دلایا تھا کہ ہمارا پروگرام صبح 10 بجے تک بغیر کسی بدانتظامی کے جاری رہے گا۔ لیکن بات چیت کے ذریعہ کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر انہوں نے اچانک ہم پر حملہ کر دیا۔‘‘
واضح رہے کہ 17 اکتوبر کو دوپہر جولائی چارٹر دستخط پروگرام سے کچھ گھنٹہ قبل پارلیمنٹ کے احاطہ میں قانون نافذ کرنے والے افسران اور مظاہرین کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئیں، جس میں کئی لوگ زخمی ہو گئے۔ اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے ڈھاکہ میڈیکل کالج اسپتال پولیس چوکی کے انچارج انسپکٹر فاروق نے کہا کہ ’’جولائی مخالفت مظاہرے میں شامل 36 لوگ زخمی ہوئے تھے جنہیں ڈھاکہ میڈیکل کالج اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔‘‘
رپورٹس کے مطابق جیسے ہی مظاہرین نے ریلی نکالنے اور اپنے مطالبات پر زور دینے کی کوشش کی تو فوج اور پولیس نے انہیں پارلیمنٹ کے دروازہ پر روک دیا، جس سے تشدد پھوٹ پڑا۔ پولیس نے جوابی کارروائی میں لاٹھی چارج کیا اور بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے 3 راؤنڈ ساؤنڈ گرینیڈ داغے۔ اس کے بعد مظاہرین نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایک کار اور ایک بس سمیت پولیس کی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی اور جولائی دستخط پروگرام کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر قائم عارضی استقبالیہ کمرہ، کنٹرول روم اور فرنیچر میں آگ لگا دی۔
مظاہرین نے عبوری حکومت کو چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگر ہمیں پھر سے اپنا خون بہانا پڑا تو دوسری انتظامیہ بھی نہیں بچے گی۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ کیسے گزشتہ سال ہوئے مظاہروں نے سابق عومی لیگ حکومت کو گرا دیا تھا اور محمد یونس کی قیادت والی عارضی حکومت کے اقتدار میں آنے کا راستہ صاف کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال پرتشدد مظاہرے کے دوران سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی قیادت والی عوامی لیگ کی جمہوری طور سے منتخب حکومت کو گرا دیا گیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔