بنگلہ دیش بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی بحران کی طرف گامزن

بنگلہ دیش میں مسلسل احتجاج، تشدد اور غیر یقینی فیصلوں نے معیشت کی رفتار کو روک دیا۔ سرمایہ کاروں کا بھروسہ بھی کمزور ہوا ہے اور کئی صنعتی کمپنیوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>محمد یونس (فائل)، ویڈیو گریب</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

بنگلہ دیش اس وقت اپنے سب سے مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ کچھ وقت قبل تک جس ملک کو ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشت میں شمار کیا جا رہا تھا، آج وہ شدید غیر یقینی اور دباؤ میں نظر آ رہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام، بڑھتی بے روزگاری اور کمزور ہوتی معیشت نے عام لوگوں کی زندگی مشکل بنا دی ہے۔ گزشتہ سال ہونے والی سیاسی تبدیلی کے بعد عبوری حکومت سے استحکام اور اصلاحات کی امید کی جا رہی تھی، لیکن حالات اس کے برعکس ثابت ہوئے۔ مسلسل احتجاج، تشدد اور غیر یقینی فیصلوں نے معیشت کی رفتار کو روک دیا۔ سرمایہ کاروں کا بھروسہ بھی کمزور ہوا اور کئی صنعتی کمپنیوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جائزے کے مطابق بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی کی شرح میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ جہاں پہلے یہ شرح 7 فیصد کے آس پاس رہتی ہے، جبکہ اب یہ 4 فیصد سے نیچے آ گیا ہے۔ پیداوار میں تاخیر، سخت پالیسیاں اور سیاسی بے یقینی اس کی بڑی وجہ مانی جا رہی ہے۔ حالانکہ مہنگائی پہلے  کے مقابلہ میں کچھ حد تک کم ہوئی ہے، لیکن کھانے پینے کی ضروری اشیاء اب بھی مہنگی ہیں۔ اس کا براہ راست اثر عام خاندانوں کی خریدنے کی قوت پر پڑ رہا ہے۔ جب اخراجات بڑھتے ہیں اور آمدنی میں کمی آتی ہے تو گھریلو مانگ کا کمزور ہونا یقینی ہے۔


سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح میں واضح طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں، خاص طور پر نوجوان اور مزدور طبقہ میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ چھوٹے کاروباری اپنے کام بند کر رہے ہیں اور نئے روزگار کے مواقع محدود ہو گئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے بینکنگ سیکٹر کی حالت بھی تشویشناک ہے۔ بڑی تعداد میں ایسے قرض ہیں، جن کی وصولی مشکل ہو گئی ہے۔ طویل عرصہ تک ان مسائل کو چھپایا گیا ہے، جس کی وجہ سے حالات بگڑتے چلے گئے۔ اب بینک نئے قرض دینے میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں، جس کی وجہ سے کاروبار پر اثر پڑا ہے۔

ملک میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری، جسے ترقی کی ریڑھ کی ہڈی مانا جاتا ہے، بری طرح سست پڑ گئی ہے۔ فیکٹریوں اور کاروباری توسیع سے متعلق مشینوں کی درآمدات میں کمی آئی ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ کمپنیاں مستقبل کے حوالے سے پر اعتماد نہیں ہیں۔ راحت کی بات یہ ہے کہ سیاسی بحران کے باوجود کچھ غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے، لیکن کئی بڑے سرمایہ کار اب بھی انتظار کی پالیسی اپنا رہے ہیں۔ خاص طور پر توانائی کے شعبے میں غیر یقینی صورتحال نے سرمایہ کاری کو متاثر کیا ہے۔


قابل ذکر ہے کہ 2026 کی شروعات میں مجوزہ انتخابات سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ منتخب حکومت آنے کے بعد حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی نوجوان آبادی ملک کی سب سے بڑی طاقت ہے، جو صحیح پالیسیوں کے ساتھ معیشت کو دوبارہ پٹری پر لا سکتی ہے۔ بنگلہ دیش کی معیشت اب بھی مکمل طور پر برباد نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ طویل عرصے سے دبے ہوئے ڈھانچہ جاتی بحران سے گزر رہی ہے۔ کمزور بینکنگ سسٹم، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور سست ترقی کی شرح اس سچائی کو اجاگر کر رہے ہیں۔ اب ضرورت ہے ٹھوس اصلاحات اور مستحکم سیاسی ماحول کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔