روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام جاری رہے گا :سو کی

Getty Images
Getty Images
user

قومی آوازبیورو

نپئی تا:میانمار کے رخائن علاقے میں فوج کی طرف سے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ لاکھوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنے کو مجبور ہوئے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر دنیا پریشان ہے ۔ اقوام متحدہ اور متعدد ممالک کی طرف سے انسانیت کی دہائی دے کر میانمار کی اسٹیٹ کونسلر آنگ سان سوکی سے یہ اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ اس معاملہ میں اپنا کردار ادا کریں اور قتل عام کو روکیں۔ کافی وقت سے آنگ سان سوکی اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے تھیں۔ آج انہوں نے خاموشی تو توڑی، لیکن اس میں نہ تو روہنگیا مسلمانوں کے تئیں ہمدردی کا اظہار تھا اور نہ ہی اس بات کا افسوس کہ فوج نے لاکھوں لوگوں کو قتل کر دیا۔ آنگ سان سوکی نے قوم کے نام خطاب کے دوران بالواسطہ طور پر بین الاقوامی اپیل کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک طرح سے روہنگیا مسلمانوں کو تنبیہ دی ہے کہ ان پر کوئی رحم نہیں کیا جائے گااور قتل عام جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ملک دنیا بھر کی تنقید سے ڈرنے والا نہیں ہے اور کسی بھی صورت میں ملک کی سلامتی سے سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

آنگ سان سوکی نے کہا کہ روہنگیا بحران پر وہ عالمی دباؤ میں نہيں آئیں گی اور ان کی حکومت ملک کے استحکام اور قانون کی حکمرانی کے لئے پابند عہد ہے۔ سو کی نے کہا کہ میانمار نے رخائن میں امن قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن روہنگیا کمیونٹی نے پولس چوکیوں اور بے گناہ لوگوں پر حملے کئے۔ میانمار دہشت گردی سے لڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے گھر ہونے والے لوگوں کے لئے ہمیں دکھ ہے اور فوج کی کارروائی کے دوران اگر کسی طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو اس کی جانچ کرائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مجرم لوگوں کے خلاف سخت کارروائی بھی کی جائے گی۔ آنگ سان سوکی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لئے اپنا دورہ منسوخ کردیا ہے، جہاں روہنگیا بحران پر بحث چل رہی ہے۔ انہوں نے قومی سطح پر نشر ہونے والے اپنے خطاب میں کہا کہ "میانمار حکومت کا ارادہ کسی بھی طرح کی تنقید سننے کا نہیں ہے اور نہ ہی ہم ذمہ داری سے ہاتھ کھینچ رہے ہيں۔ ہم اپنے ملک میں ہر طرح کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور غیر قانونی تشدد کی مذمت کرتے ہیں۔

Getty Images
Getty Images

روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر سو کی نے کہا کہ 70 سال سے ملک کو امن و استحکام کی ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ رخائن میں امن قائم کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس کی قیادت کے لئے اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان کو مدعو کیا گیا ہے۔

پرتشدد کارروائی پر سوکی کا یہ پہلا باقاعدہ بیان آیا ہے، جس کو سننے کے لئے آج صبح کثیر تعداد میں لوگ رنگون اور دوسرے شہروں میں بڑی ٹی وی اسکرین کے سامنے کھڑے نظر آئے۔

ایک طرف حقوق انسانی کی تنظیموں اور متعدد ممالک نے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو روکنے اور مظلوم روہنگیا کی طرف سے آواز نہ اٹھانے کے لئے اوراپنے عہدے کا صحیح استعمال نہ کرنے پر آنگ سان سوکی کی شدید تنقید کی ہے، تو دوسری طرف چین نے قومی سلامتی کے تحفظ کے لئے میانمار حکومت کی کوششوں اور رخائن میں پرتشدد واقعات کے خلاف فوجی کارروائی کی حمایت کی ہے۔ روہنگيا آبادی کےخلاف بڑے پیمانے پر فوج کی وحشیانہ کارروائی کے پیش نظر اقوام متحدہ کو اسے ’منظم نسل کشی‘ کا نام دینا پڑا ہے، کیونکہ اس کارروائی میں بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزياں کی گئی ہيں۔ گزشتہ ہفتہ ہندوستان نے رخائن کی صورتحال سے آپسی مفاہمت سے نمٹنے اور شہری آبادی کے ساتھ ہی فوج کی بہبود پر توجہ دینے کو کہا تھا۔

ہندوستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر سید معظم علی نے 9 ستمبر کو ہندوستان کے خارجہ سکریٹری ایس جے شنکر سے ملاقات کرکے روہنگيا پناہ گزینوں کے مسئلے پر اپنے ملک کے موقف کی وضاحت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ کثیر تعداد میں پناہ گزینوں کے آنے سے بنگلہ دیش کے لئے مشکلات پیدا ہورہی ہيں۔ اس لئے بین الاقوامی برادری کی مدد کی ضرورت ہے۔ عالمی براردری کو آگے آنا چاہئے اور روہنگیا بحران کو حل کرنے کے لئے میانمار پر دباؤ ڈالنا چاہئے۔

غور طلب ہے کہ مغربی میانمار کے رخائن صوبے میں گذشتہ 25 اگست کو روہنگیا باغیوں کے پولس چوکیوں اور فوج کے کیمپوں پر حملے کے بعد سے ان کے خلاف شروع ہوئی تشدد کارروائی اب بھی جاری ہے. ان حملوں میں تقریبا 12 افراد ہلاک ہوگئے۔ میانمار سے چار لاکھ سے زیادہ روہنگیا تشدد پسند کارروائی کے باعث بنگلہ دیش سے بھاگ گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Sep 2017, 2:37 PM