سعودی عرب اور یو اے ای کی دوستی میں پڑا شگاف، یو اے ای کے فوجیوں کو ملا 24 گھنٹے کا الٹی میٹم

سرد جنگ میں پھنسے یمن میں ابھی کئی گروپ کام کر رہے ہیں۔ ان میں حوثی انقلابی، ساؤدرن ٹرانزیشنل کاؤنسل (ایس ٹی سی) اور پریسیڈنشیل لیڈرشپ کاؤنسل (پی ایل سی) شامل ہیں۔

سعودی عرب، تصویر آئی اے این ایس
i
user

قومی آواز بیورو

2 قریبی عرب ممالک سعودی اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی دوستی میں شگاف پڑ چکا ہے۔ شگاف بھی کچھ ایسا کہ تلخیاں بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اس کی قومی سیکورٹی ایک ’ریڈ لائن‘ ہے، جس کی وہ حفاظت کرے گا۔ اس سے قبل سعودی عرب یمن کے مکلا بندرگاہ پر حملہ کیا تھا۔ سعودی کا دعویٰ ہے کہ مکلا پورٹ پر اس نے حملہ تب کیا جب وہاں یو اے ای کے جہاز اسلحوں کی اَنلوڈنگ کر رہے تھے۔ سعودی عرب نے ویڈیو فوٹیج جاری کر بتایا ہے کہ یو اے ای کی کشتیاں اسلحے اور بختر بند گاڑیاں مکلا پورٹ پر اتار رہے تھے، اسے دیکھتے ہوئے حملہ کیا گیا۔

’سعودی عرب نریٹیو‘ کے مطابق یہ اسلحہ یمن میں ان گروپوں کو دیے جا رہے تھے جو سعودی عرب کے دشمن ہیں۔ سعودی کا دعویٰ ہے کہ یہ جہاز فجیرہ بندرگاہ سے روانہ ہوئے تھے، جن کے ٹریکنگ سسٹم بند تھے اور جن میں کثیر مقدار م یں اسلحے و جنگی گاڑیاں لادی گئی تھیں۔ یہ اسلحے یمن کے علیحدگی پسند گروپ ’ساؤدرن ٹرانزیشنل کاؤنسل‘ (ایس ٹی سی) کے لیے تھے۔ اس گروپ کو یو اے ای کی حمایت حاصل ہے۔


سعودی عرب نے یو اے ای جیسے بھائی چارہ والے ملک کے ذریعہ ایس ٹی سی کی افواج پر سعودی جنوب سرحد کے پاس ملٹری آپریشن کرنے کا دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔ رائٹرس کے مطابق سعودی عرب نے یو اے ای کے فوجیوں کو یمن چھوڑنے کے لیے 24 گھنٹے کا وقت دیا ہے۔ سعودی وزارت خارجہ نے بیان جاری کر کہا کہ ’’یہ محدود کارروائی علاقائی امن کے لیے کطرے کو روکنے کے لیے کی گئی۔ ہم نے ملکیت کا نقصان کم از کم رکھا۔‘‘ حملہ میں کسی کے ہلاک ہونے کی خبر نہیں ہے، لیکن مکلا پورٹ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ گروپ ایس ٹی سی نے اسے ’جارحانہ‘ قرار دیتے ہوئے یو اے ای سے فوجی مدد مانگی ہے۔ اس کے جواب میں یمن کی سعودی حامی صدارتی کونسل نے یو اے ای کے ساتھ دفاعی معاہدہ رد کر دیا اور 72 گھنٹے کے لیے سرحدوں پر پابندی لگا دی ہے۔ یمن کی پریسیڈنشیل لیڈرشپ کاؤنسل کے سربراہ رشاد العلیمی نے یو اے ای کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدے کو رد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سرد جنگ میں پھنسے یمن میں ابھی کئی گروپ کام کر رہے ہیں۔ ان میں حوثی انقلابی، ساؤدرن ٹرانزیشنل کاؤنسل (ایس ٹی سی) اور پریسیڈنشیل لیڈرشپ کاؤنسل (پی ایل سی) شامل ہیں۔ حوثی انقلابیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے، ایس ٹی سی کو مبینہ طور سے یو اے ای کی حمایت حاصل ہے، جبکہ پی ایل سی کو سعودی عرب کی حمایت مل رہی ہے۔ یہ تینوں ہی گروپ یمن کے الگ الگ حصوں میں قبضہ کیے ہوئے ہیں۔


الجزیرہ نے حمد بن خلیفہ یونیورسٹی میں پبلک پالیسی کے پروفیسر سلطان برکات کے حوالے سے لکھا ہے کہ یو اے ای 2014 میں فوج میں حوثی انقلابیوں کے قبضہ کو پلٹنے کی کوشش کرنے کے لیے سعودی عرب کی قیادت والے ملٹری اتحاد میں شامل ہوا تھا، لیکن تب سے دونوں ممالک کے درمیان رشتے زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ برکات نے کہا کہ ’’دھیرے دھیرے یو اے ای نے سعودی عرب سے پوچھے بغیر یمن میں خارجہ پالیسی اور آزادانہ فیصلے لینے کی عادت ڈال لی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یمن میں جنوبی علیحدگی پسندوں کی حالت کچھ حد تک مضبوط ہوئی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔