ٹرمپ انتظامیہ کے نئے ایچ-1بی ویزا اصول کے خلاف 19 امریکی ریاستوں نے دائر کیا مقدمہ

نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز نے 18 دیگر اٹارنی جنرل کے ساتھ مل کر جمعہ (12 دسمبر) کو میساچوئٹس ڈسٹرکٹ کی وفاقی عدالت میں نئے ایچ-1بی ویزا اصول کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>ایچ ون بی ویزا / علامتی تصویر</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

امریکہ کی کیلیفورنیا سمیت 19 ریاستوں نے نئی ایچ-1بی ویزا درخواستوں پر ایک ملین ڈالر (تقریباً 9 کروڑ روپے) فیس لینے کے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائرکیا ہے۔ ریاستوں نے وارننگ دی ہے کہ اس قدم سے ہیلتھ سروس، ایجوکیشن اور ٹیکنالوجی جیسے اہم شعبوں میں پیشہ ور افراد کی کمی مزید بڑھ جائے گی۔

نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز نے 18 دیگر اٹارنی جنرل کے ساتھ مل کر جمعہ (12 دسمبر) کو میساچوئٹس ڈسٹرکٹ کی وفاقی عدالت میں یہ مقدمہ دائر کیا۔ انہوں نے مناسب عمل کے بغیر ایچ-1بی فیس میں زبردست اضافے کو چیلنج کیا ہے۔ ایچ-1بی ویزا پروگرام کے تحت اعلیٰ ہنر مند (ہائی اسکلڈ) غیر ملکی پیشہ ور افراد کو امریکہ میں کام کرنے کی عارضی طور پر اجازت ملتی ہے۔ ایچ-1بی ویزا لینے والوں میں 70 فیصد سے زائد ہندوستانی ہیں۔


واضح رہے کہ رواں سال ستمبر میں ٹرمپ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ نئے ایچ-1بی ویزا پانے والے والے ملازمین کے آجروں کو ایک ملین ڈالر فیس دینی ہوگی۔ اب تک  یہ فیس عام طور پر 2000 ڈالر (1.81 لاکھ روپے) سے 5000 ڈالر (4.52 لاکھ روپے) کے درمیان ہوتی تھی۔ اس فیصلہ کو چیلنج دینے والا یہ تیسرا مقدمہ ہے۔ ٹرمپ کی ہدایت کے مطابق جب تک فیس کی ادائیگی نہیں کی جائے گی تب تک نئے ایچ-1بی ویزا ہولڈرز کو امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں ملے گی۔ حالانکہ یہ قانون موجودہ ایچ-1بی ویزا ہولڈرز یا 21 ستمبر سے قبل درخواست دینے والوں پر نافذ نہیں ہوگا۔

مقدمے میں دلیل دی گئی ہے کہ نئی فیس سے ان سرکاری اور غیر منافع بخش تنظیموں کے لیے مشکلیں کھڑی ہو جائیں گی جو صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں ضروری خدمات فراہم کرنے کے لیے ایچ-1بی ویزا ہولڈرز پر منحصر ہیں۔ مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ایچ1-بی ویزا سے باصلاحیت ڈاکٹروں، نرسوں، اساتذہ اور دیگر کام کرنے والوں کو ہمارے ملک کے ضرورت مند طبقوں کی خدمت کرنے کا موقع ملتا ہے۔


اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز نے کہا کہ ’’اس پروگرام کو برباد کرنے کی انتظامیہ کی غیر قانونی کوشش سے نیویارک کے لوگوں کے لیے صحت کی خدمات حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا، ہمارے بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ آئے گی اور معیشت کو نقصان ہوگا۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’’میں تارکین وطن برادریوں کو نشانہ بنانے والی اس بدنظمی اور ظلم کو روکنے کے لیے لڑائی جاری رکھوں گی۔