منی پورمیں آگ کرناٹک میں پھولوں کی بارش

منی پور جل رہا ہے، دہلی کے جنترمنتر پر ملک کا نام روشن کرنے والی ریسلر لڑکیاں دھرنے پر بیٹھی ہیں لیکن ہمارے پردھان سیوک صاحب کرناٹک میں انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

اعظم شہاب

” میری ریاست منی پور جل رہی ہے، پلیز مدد کیجئے “یہ گوہار ہے ہندوستان کی مشہور مکے باز میری کوم کا جنہوں نے 4 مئی کووزیراعظم نریندرمودی، پی ایم او،وزیرداخلہ امت شاہ اور وزیردفاع راج ناتھ سنگھ کو ٹیگ کرتے ہوئے ٹوویٹ کیا۔اسی کے ساتھ انہوں نے دوتین تصویریں بھی شیئر کیں جن میں جلتے ہوئے مکان ودوکان نظر آرہے ہیں۔ یہ ٹوویٹ اور تصویریں منی پور کی صورت حال کی سنگینی کو بیان کرنے کے لیے کافی تھیں، لیکن بدقسمتی سے میری کوم نے جن سے مدد کی گوہار لگائی وہ کرناٹک کے انتخابی مہم میں مصروف رہے جس کی وجہ سے 54سے زائد لوگوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑگئیں،100 سے زائد لوگ زخمی ہوگئے، کئی ہزار لوگوں کو خوف کی وجہ سے اپنا گھربار چھوڑنا پڑگیا اورجو مالی نقصان ہوا یا ہورہا ہے اس کا توکوئی شمار ہی نہیں ہے۔

یہ وہی منی پور ہے جہاں گزشتہ سال فروری میں انتخاب کے دوران پردھان سیوک صاحب نے بی جے پی کو ووٹ دینے کے بدلے منی پور کے لوگوں کو25سال تک امن وامان کی ضمانت دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تھا کہ یہاں کی ڈبل انجن کی سرکار نے ریاست میں جو امن وامان کی فضا قائم کی ہے اسے برقرار رکھنے کے لیے بی جے پی کو ایک بار پھر کامیاب کریں۔ وہاں کے لوگوں نے 60سیٹوں کی اسمبلی میں بی جے پی کو واضح اکثریت دی۔ 2017میں بی جے پی کے پاس21سیٹیں تھیں لیکن4-4سیٹوں والی این پی پی اوراین پی ایف کو ساتھ لے کر اس نے حکومت بنالی تھی۔ جبکہ اس وقت کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی اور اس کے پاس کل28سیٹیں تھیں۔


منی پور میں تشدد کی شروعات 28؍اپریل سے ہوئی لیکن اس کی چنگاری کئی ماہ پہلے سے سلگ رہی تھی۔ یہاں کی برین سنگھ حکومت نے پہاڑی حصے میں رہنے والے قبائلیوں کے خلاف یہ کہہ کر کارروائی شروع کردی کہ وہ لوگ جنگلات کی زمینوں پر غیرقانونی طور پر قبضہ کرکے اس پر افیم کی کھیتیاں کرتے ہیں۔ حکومت کی یہ کارروائی منی پور فاریسٹ ایکٹ 2021کے تحت تھی جبکہ قبائلیوں کا کہنا ہے کہ یہ ان کی اپنی آبائی زمین ہے، انہوں نے کوئی قبضہ نہیں کیا ہے بلکہ برسوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ قبائلیوں نے حکومت کی اس مہم کو ان کی آبائی زمین سے بے دخل کرنا قرار دیا اور ان کے اندر حکومت کے خلاف غصہ پھیل گیا۔انہوں نے حکومت کے خلاف احتجاج شروع کردیا اور حکومت نے چورچاندپور ضلع میں جہاں یہ مظاہرہ ہورہاتھا، دفعہ144؍نافذ کردی۔

اسی دوران حکومت کے ایک اور ناعاقبت اندیشانہ قدم نے ان قبائلیوں کی ناراضگی پر پٹرول کا کام کیا۔ہوا یوں کہ یو پی اے کی منموہن سنگھ حکومت نے قبائلیوں کی دو مسلح تنظیموں ’جیمی ریولیوشن آرمی‘ اور‘کوکی نیشنل آرمی‘کے خلاف فوجی کارروائی کوروکنے کا جو سمجھوتہ کیا تھا، اسے رد کردیا گیا۔ دراصل کوکی برادری کی کئی تنظیمیں 2005تک مسلح بغاوت میں شامل رہیں۔ 2008میں مرکزکی من موہن سنگھ حکومت نے ان تمام تنظیموں کے خلاف فوجی کارروائی کور وکنے کے لیے’سسپنشن آف آپریشن‘ سمجھوتہ کیا۔ اس کا مقصد حکومت اور ان باغی تنظیموں کے درمیان بات چیت کو بڑھاوا دینا تھا۔ پھر وقتاً فوقتاً اس سمجھوتے کی مدت کو بڑھایا جاتا رہا، لیکن اسی سال10؍مارچ کو منی پور کی بی جے پی حکومت اس سمجھوتے سے پیچھے ہٹ گئی اور فوجی کارروائی کومنظوری دیدی۔


غیرقانونی قبضہ جات کے ہٹانے کے نام پر حکومت کی کارروائی اور سسپنس آف آپریشن سمجھوتہ ختم کرنے سے ابھی یہ قبائلی غصے میں ہی تھے کہ ہائی کورٹ کا میدانی علاقوں میں رہنے والے میتئی برادری کو قبائلی درجہ دینے کا حکم آگیا۔ یہ فیصلہ آنے کے بعد پہاڑی علاقوں میں خصوصی قانون کے تحت رہنے والے قبائلیوں کا غصہ اوربھڑک اٹھا۔انڈیجنس ٹرائبل لیڈرس فورم نے 28اپریل کو چوراچندرپور میں8گھنٹے بند کااعلان کیا تھاجس کی وجہ سے وزیراعلیٰ برین سنگھ کو اپنے پہلے سے طے شدہ پروگرام کومنسوخ کرنا پڑگیا۔پولیس اور مظاہرین کے درمیان پوری رات جھڑپیں ہوتی رہیں اور مظاہرین نے توئی بونگ علاقے میں فاریسٹ رینج آفس کو آگ لگا دی۔3 مئی کو آل ٹرائبل اسٹوڈنٹس یونین آف منی پور نے’آدیواسی ایکتا مارچ‘ نکالا۔ یہ میتئی برادری کو ایس ٹی کا درجہ دینے کے خلاف تھا۔اس سے حالات مزید بگڑ گئے اور ذات پات کی لڑائی شروع ہوگئی۔ ایک طرف میتئی برادری کے لوگ اور دوسری طرف کوکی اور ناگا برادری کے لوگ،اس تشدد میں اب تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 54 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب 28؍اپریل کو شروع ہونے والی تشدد کی چنگاری حکومت کی نااہلی کے سبب بہت پہلے سے سلگنے لگی تھی تو بی جے پی کی سنگل انجن سرکار نے کوئی اقدام کیوں نہیں لیا؟ تو اس کا جواب بدقسمتی سے اسی سیاست سے آلودہ ہے جس کے لیے پردھان سیوک صاحب کرناٹک میں 26-26کلومیٹر کا روڈشوفرمارہے ہیں اور بجرنگ بلی کی دہائی دیتے گھوم رہے ہیں۔ میتئی برادری کے زیادہ ترلوگ بی جے پی کے ووٹر ہیں اور اسی ووٹ بینک کی پالیسی کے تحت ریاستی بی جے پی کی حکومت تساہلی برتتی رہی۔ کہاں تو پردھان سیوک منی پور کے لوگوں کوبی جے پی حکومت آنے کی صورت میں 25سال کے امن وامان کی ضمانت دے رہے تھے، کہاں محض ایک سال میں ہی ریاست تاریخ کے سب سے خوفناک فساد میں جل اٹھا۔گوکہ اب حالات کسی طور پرقابومیں بتائے جارہے ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ جب یہ چنگاری پہلے سے ہی سلگ رہی تھی تو پھر بروقت اسے بجھانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟


کہاجاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا توشہنشاہ نیرو بانسری بجارہاتھا۔اس کہاوت میں کتنی سچائی ہے؟ اس کے بارے میں ہم زیادہ تونہیں جانتے،لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ اگر اس وقت بھی اقتدارکے لیے انتخابات کا چلن ہوتا تونیرو یقینا بانسری بجانے کے بجائے انتخابی مہم چلارہا ہوتا۔دہلی میں پردھان سیوک کی ناک کے نیچے پہلوان ریسلر بیٹیاں ان کے ہی ایک وزیر پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کرتے ہوئے دھرنا دیئے بیٹھی ہیں، ان کے ڈبل انجن کی حکومت والی ریاست منی پور جل رہا ہے، لیکن پردھان سیوک کرناٹک میں انتخابی مہم میں پھولوں کی بارش کروانے میں مصروف ہیں۔ اس سے پردھان سیوک کی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی پہلی ترجیح انتخاب جیتنا ہوتا ہے پھر چاہے اس کے لیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے،چاہے  مذہبی منافرت پھیلانا پڑے، چاہے بجرنگ بلی کی دہائی دینی پڑہے، چاہے تھرڈ کلاس کی فلم کیرالا اسٹوری کا پرچار کرنا پڑے یا پھر منی پور میں آگ لگی رہے۔ شاید ایسے موقع کے لیے عباس تابش نے یہ شعر کہاتھا

ڈوبتی ناؤ سب چیخ رہے ہیں تابش

اورمجھے فکر غزل اپنی مکمل ہوجائے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔