قرآن سوزی دور جاہلیت کی تکرار

سویڈن میں قرآن سوزی کے خلاف مسلمانوں نے شیعہ اور سنی نیز عربی اور عجمی سے بالاتر ہوکر جو ردعمل دکھایا ،اس سے عالم کفر پر واقعتاً لرزہ طاری ہوگیا۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

نواب علی اختر

دشمنوں نے گزشتہ چند صدیوں میں اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو مختلف فرقوں اور علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کرکے پہلے کمزور کیا اور پھر ان کی گردنوں پر سوار ہوگئے۔ دین اسلام کی اہانت، قرآن مجید کی بے ادبی اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کے واقعات اس لئے سامنے آرہے ہیں چونکہ دشمنوں کو معلوم ہے کہ ہم شیعہ اور سنی میں بٹے ہوئے ہیں اور دین اسلام کی حفاظت کے حوالے سے ہماری کو ئی مشترکہ منصوبہ بندی نہیں ہے۔ دشمن نے سلمان رشدی سے قلم چلوا کراور مساجد اور امام بارگاہوں میں لوگوں کو گولیاں مروا کر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پہلے ہماری ملی اور دینی غیرت کا اندازہ لگایا اور پھر کھل کر خود میدان میں اترا۔

اب کی بار دشمن نے ایک قرآن مجید کی بے توقیری کرکے اسلام کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالی لیکن اسے جس رد عمل کا سامنا کرنا پڑا وہ اس کی توقع کے خلاف تو نہیں تھا البتہ اس کی امید اور توقع سے کہیں زیادہ تھا۔ سویڈن میں قرآن سوزی کے خلاف مسلمانوں نے شیعہ اور سنی نیز عربی اور عجمی سے بالاتر ہوکر جو رد عمل دکھایا ،اس سے عالم کفر پر واقعتاً لرزہ طاری ہوگیا ۔ دنیا کے بیشتر حصوں میں جہاں بظاہر فرقہ واریت عروج پر تھی، کتاب اللہ کی توہین کے خلاف ایک دوسرے کو گلے لگالیا اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر سب متحد ہوکر سراپا احتجاج بن گئے۔ اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک میں قرآن سوزی کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں کیونکہ قرآن مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے اور اس کو نذرآتش کرنا مسلمانوں کی بہت بڑی توہین ہے۔


 اگرچہ قرآن جلانا ایک تلخ اور نفرت انگیز واقعہ ہے لیکن یہ واقعہ تازہ اور نیا نہیں ہے۔ دور جاہلیت سے لیکر اب تک باطل طاقتوں نے حق کو نابود کر نے کے لیے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں۔ انھوں نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی آواز کو خاموش کر نے کے لیے آگ روشن کر کے انھیں منجنیق میں رکھ کر آگ میں پھینکا اور ایک زمانے میں توحید اور خدا پرستی کی بساط کو لپیٹنے کے لیے خانہ خدا کو مسمار کرنے کا فیصلہ کیا اور اس پر حملہ کر دیا اور یہ واقعہ اصحاب فیل کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے بعد کچھ لوگ اسلام کی ترقی اور فروغ کو روکنے کی غرض سے پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفی کو ساحر اور مجنون کہنے لگے اور کلام وحی کو نہ سننے کی غرض سے اپنے کانوں کو بند کر لیتے تھے۔ بنابرایں اگر عصر حاضر میں سلمان رشدی جیسے ملعون کتاب آیات شیطانی لکھ کر یا تقریر کے ذریعہ یا فلم، مقالات، کتاب اور کارٹونوں کے ذریعہ قرآن کریم، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کی دیگر مقدسات کی توہین کر رہے ہیں تو یہ لوگ درحقیقت دور جاہلیت کے طریقوں پر عمل کر رہے ہیں۔

چنانچہ تاریخی تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ دشمنی اور منطق کے فقدان کی و جہ سے زمانہ جاہلیت کے طور و طریقہ پر عمل کرتے ہیں اس کا ہمیشہ منفی نتیجہ نکلا ہے۔ دشمنان اسلام نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو جلانے کے لئے جو آگ روشن کی تھی وہ لوگوں کی ہدایت کا موجب بن گئی اور اصحاب فیل کو شکست اٹھانی پڑی اور خانہ خدا آج بھی صدیوں کے بعد اپنی عظمت و شکوہ کے ساتھ پا برجا ہے اور دسیوں لاکھ توحید پرستوں کی میزبانی کر رہا ہے اور ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں۔اس سے واضح ہے کہ مغرب مسلمانوں، پیغمبر اسلام اور کتاب بزرگ قرآن مجید کے مقابل خود کو بے بس و لاچار محسوس کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود لجاجت اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اسلامو فوبیا کو ہوا دے رہا ہے اور اسلام دشمنی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سلسلے میں مغرب غیر معقول اور دوران جاہلیت کی طرح جدید اور نئی روشوں سے کام لے رہا ہے۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرب نے اپنے غیر منطقی کردار کے ذریعہ اسلام کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے جو اقدامات انجام دیئے، اس سے اسلام کی طرف لوگوں کی توجہ کے بڑھنے کے اسباب اور بھی زیادہ بڑھ گئے لیکن اس کے باوجود وہ اس عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ جو اس بات کی مستحکم دلیل ہے کہ مغرب خواستہ یا ناخواستہ طور پر دوران جاہلیت کی طرح عمل کر رہا ہے، کیونکہ قرآن کو جلانے کا عمل دوران جاہلیت کے تعصبات سے بہت زیادہ شباہت رکھتا ہے۔ اس وقت مغربی ممالک آزادی اور جمہوریت کا کچھ زیادہ ہی نعرہ لگا رہے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر عالمی انسانی حقوق کے اعلامیہ کو عمل کا معیار قرار دیتے ہیں اور دنیا کے ممالک سے چاہتے ہیں کہ وہ اس اعلامیہ کے مطابق اپنے اپنے ممالک میں انسانی حقوق کا خیال رکھیں۔

اس اعلامیہ میں کسی بھی قسم کے نسلی، قبائلی اور مذہبی اختلافات پر توجہ دیئے بغیر تمام انسانوں کے حقوق کے احترام پر زور دیا گیا ہے۔ مغربی حکام انسانی حقوق اعلامیہ میں تمام تر نقائص کے باوجود اس پر فخر کرتے ہیں اور اسے انسانی حقوق کو پورا کرنے میں ایک اہم اور بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔لیکن اس سلسلے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، اس لئے کہ مغرب کے دعووں اور اس کے عمل وکردار میں تضاد پایا جاتا ہے، اس لیے کہ مغرب میں قرآن سوزی کا مسئلہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے بالاتر ہے اس لیے کہ قرآن مجید کی توہین دو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی توہین ہے۔


اسلام، قرآن اور مسلمانوں کے خلاف انجام پانے والے تمام اقدامات کے نتائج نہ صرف اسلام، قرآن اور مسلمانوں کے مقدسات کو مخدوش نہیں کر سکے بلکہ اس کے برخلاف اسلام اور قرآن کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ گئی۔ لیکن مغرب والے گاہے بگاہے اس عمل کی مسلمانوں کے امتحان اور آزمائش کے لیے تکرار کرتے ہیں اور اپنی نرم جنگ کے نتیجہ کا جائزہ لیتے رہتے ہیں کیونکہ مغرب والے نرم جنگ میں مختلف قسم کے تشہیراتی وسائل کا استفادہ کرتے ہیں اور لوگوں کے عقاید، سیاست، رفتار و کردار اور ان کی زندگی کے اہم امور کو نشانہ بناتے ہیں اور لوگوں کی اکثریت کو متاثر کر دیتے ہیں۔سویڈن میں حالیہ قرآن سوزی کے واقعہ سے مسلمانان عالم غم و غصہ میں آ گئے۔ اس طرح عالم اسلام کے رد عمل نے مغرب کے حکام اور سیاستدانوں میں طلاتم پیدا کردیا۔

اقوام عالم اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن کریم دین اسلام میں خیمہ کے ستون کی مانند ہے، لہذا انھوں نے قرآن کے بارے میں ان کے عقائد کو کمزور کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر اقدامات کئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کو اس طرح کی توہینوں سے نہ صرف کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ اس کے برخلاف مسلم و غیر مسلم معاشرے میں اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گا۔ بہرحال جب تک مغرب میں اسلام دشمنی کا سنجیدگی سے مقابلہ نہیں کیا جائے گا، سویڈن اورڈنمارک جیسے ممالک میں قرآن سوزی اور مسلمانوں کی توہین کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ صورتحال صرف مسلمانوں ہی کے لیے خطرناک نہیں ہے بلکہ تمام ادیان الہی اور عالمی امن کے لئے حقیقی خطرہ ہے۔

نوٹ: مضمون میں رائے مضمون نگار کی ہے اور قومی آواز کا اس رائے سے مطفق ہونا کوئی لازمی نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔