کیا پرنب مکھرجی سنگھ کو نیشنلزم کا سبق پڑھائیں گے

سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی سنگھ کی ’ترتیہ ورش‘ یعنی کورس کے تیسرے سال کی اختتامی تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کئے گئے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

اس خبر کے عام ہونے کے بعد کہ سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی آر ایس ایس کی ایک تقریب میں شرکت کےلئے ریشمی باغ ، ناگپور میں واقع سنگھ کے ہیڈ کوارٹر جائیں گے، سیاسی گلیاروں میں ہلچل شروع ہو گئی ہے۔ واضح رہے پرنب مکھرجی نے اس پروگرام میں شرکت کی تصدیق کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق پرنب مکھرجی اس تقریب میں نیشنلزم کے موضوع پر خطاب کریں گے اور آر ایس ایس کو شیشہ دکھائیں گے۔

کیا پرنب مکھرجی سنگھ کو نیشنلزم کا سبق پڑھائیں گے

سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی سنگھ کی ’ترتیہ ورش‘ یعنی کورس کے تیسرے سال کی اختتامی تقریب میں بطور مہمان خصوصی مدعو کئے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مکھرجی اپنے خطاب میں سنگھ کو نیشنلزم کے حقیقی مطلب سمجھائیں گے اور وہ اس بات کی بھی تنقید کر سکتے ہیں کہ اپنے سیاسی مفادات کو پورا کرنے کے لئے کس طرح لوگ نیشنلزم کی تشریح اپنے حساب سے کر رہے ہیں۔

اس معاملے پر کانگریس نے ایک پراسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے لیکن اس درمیان دہلی کے سابق رکن پارلیمنٹ اور شیلا دکشت کے بیٹے سندیپ دکشت نے پرنب مکھرجی کے اس دورے کو لے کر کچھ سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’پرنب مکھرجی فرقہ پرستی اور تشدد سے متعلق آر ایس ایس کے کردار پر قبل میں جوسوال اٹھا چکے ہیں اور یہ باتیں آر ایس ایس کو بھی پتہ ہوں گی۔ پرنب مکھرجی نے کہا تھا کہ’’ آر ایس ایس جیسی ملک مخالف کوئی تنظیم نہیں ہے۔ اسے ملک میں نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ دیکشت نے اپنے اس بیان کے بعد سوال اٹھایا کہ ’’ایسے شخص جو آر ایس ایس کو سانپ سے بھی زہریلا تصور کرتے ہیں، انھیں پروگرام میں مدعو کیا جا رہا ہے، تو کیا پرنب مکھرجی نے اپنا نظریہ تبدیل کرلیا ہے یا آر ایس ایس میں کوئی خوددار ہی نہیں بچا ہے۔‘‘

آر ایس ایس اس طرح کی اپنی تقریبات میں ملک کی معروف شخصیات کو مدعو کرتا رہا ہے ۔ گزشتہ سال علی گرھ مسلم یونیورسٹی کی ایک تقریب میں پرنب مکھرجی نے نیشنلزم کے موضوع پر بولتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں نیشنلزم کی کسی نئی تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔ واضح رہے کہ صدر کے عہدے سے سبک دوش ہونے کے بعد سے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے چار یا پانچ مرتبہ پرنب مکھرجی کی ملاقات ہو چکی ہے۔ ان ملاقاتوں کو لے کر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جس کانگریس پارٹی سے مکھرجی کا تعلق رہا ہے آر ایس اسی کانگریس پارٹی کی سخت مخالف رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔