کیا حالیہ انتخابات سے خواتین کی حالت میں تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے؟

بھارت میں خواتین اہم حکومتی عہدوں پر فائز رہ چکی ہیں تاہم اس کے باوجود اس مردانہ معاشرے میں خواتین کی سیاسی میدان میں شرکت محدود ہے۔ کیا حالیہ انتخابات میں کسی تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔

بھارتی خواتین کی سیاست میں شرکت غیر متاثرکن کیوں؟
بھارتی خواتین کی سیاست میں شرکت غیر متاثرکن کیوں؟
user

ڈی. ڈبلیو

بھارتی سیاست میں خواتین حکومت میں اعلی عہدوں پر فائز رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، سابق وزیراعظم اندرا گاندھی نے اقتدار کے دو ادوار دیکھے ہیں۔ پہلا دور سن 1966 سے سن 1980 تک تھا جب کہ دوسرا سیاسی سفر سن 1980 میں شروع ہوا اور سن 1984 تک جاری رہا۔ اکتوبر سن 1984میں نئی دہلی صفدرجنگ روڈ پر واقع اندرا گاندھی کی رہائش گاہ پر انہیں قتل کر دیا گیا۔

آج کل بھارتی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع خواتین ہیں۔ سونیا گاندھی حزب اختلاف کی سیاست دان ہیں، جو ایک طاقتور سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ امریکی میگزین فوربزکی ایک فہرست کے مطابق وہ دنیا کی طاقتور خواتین میں سے ایک ہیں۔

ڈائریکٹر برائے سماجی تحقیق نئی دہلی رنجنا کماری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’بھارتی سماج میں دو اقسام کی خواتین سیاست میں شمولیت اختیار کرتی ہیں۔ ایک وہ جو بڑے سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھتی ہوں اور دوسری وہ جنہوں نے بہت نچلے طبقے سے سیاست سفر کا آغاز کیا ہو۔ مثال کے طور پر ممتا بینرجی جو مغربی بنگال ریاست کی وزیر اعلی ہیں یا پھر ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی سابق وزیر اعلی مایاواتی۔

خواتین کے مسائل کے حوالے سے سال 2019 کے بھارتی انتخابات اس لیے اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ بھارتی اپوزیشن نیشنل کانگریس پارٹی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ پارلیمان سے وہ بل منظور کرائے گی، جس کا تعلق لوک سبھا میں خواتین کی تینتیس فیصد نمائندگی سے ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ آیا سیاسی معرکے پر خواتین کی موجودگی کا کتنا اثر پڑے گا، لیکن بھارت میں خواتین کی اتنی بڑی تعداد ووٹ کاسٹ کرنے کی اہل ہےکہ فیصلہ کسی بھی سمت جا سکتا ہے۔

بھارت کے انتخابی کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادو شمار کے مطابق،’’ بھارت میں تقریباً بیالیس کروڑ سے زائد خواتین ووٹ ڈالنے کی اہل ہیں۔ ایوان زیریں یعنی ’لوک سبھا‘ میں خواتین کی تعداد 11 فیصد ہے البتہ خواتین کی 33 فیصد شمولیت یقینی بنائے جانےکا بل ابھی قانون سازوں کی جانب سے پاس نہیں کیا گیا ہے۔‘‘

کاروندا نندی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ وہ دسمبر سن 2012 میں اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی نربھیاکی بھی وکیل ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہماری سیاسی جماعتیں بہت پدرانہ ذہنیت کی مالک ہیں اورخواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */