کیا 2 ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا بنگلہ دیش؟ ہندوؤں کے لیے الگ ملک کی تجویز پر تبادلہ خیال شروع
بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے لیے ایک الگ ملک کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اس تجویز کے مطابق بنگلہ دیش کے رنگپور اور چٹا گانگ ڈویژن کو الگ کر ایک نیا ملک بنانے کے امکانات پر تبادلۂ خیال کیا جا رہا ہے۔

شیخ حسینہ کے تختہ پلٹ کے بعد سے بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر مظالم میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ محمد یونس کی عبوری حکومت میں اقلیتوں خصوصاً ہندوؤں کی حفاظت کو لے کر مسلسل سوال اٹھ رہے ہیں۔ دریں اثنا بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے لیے ایک الگ ملک کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اس تجویز کے مطابق بنگلہ دیش کے رنگپور اور چٹا گانگ ڈویژن کو الگ کر ایک نیا ملک بنانے کے امکانات پر تبادلۂ خیال کیا جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف بنگلہ دیشی ہندوؤں کو تحفظ فراہم ہوگی، بلکہ ہندوستان کے شمال مشرقی خطے میں در پیش سیکورٹی چیلنجز بھی کم ہو سکتے ہیں۔
محمد یونس نے حالیہ ایک بیان میں ہندوستان کے ’چکن نیک‘ علاقے کو اس کی کمزور کڑی بتایا ہے۔ ’سوراجیہ ویب سائٹ‘ کی ایک رپورٹ میں اس امکان پر ایک تفصیلی سے بات کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق رنگپور اور چٹا گانگ کو الگ کر کے ایک نیا ملک بنایا جائے تو یہ ہندو، بدھ اور عیسائی مذاہب کے لوگوں کے لیے ایک محفوظ مقام بن سکتا ہے۔ ساتھ ہی ہندوستان کے شمال مشرقی علاقوں کو ملک کے باقی حصوں سے جوڑنے والا ’چکن نیک‘ مسئلہ کا حل بھی ہو سکتا ہے۔ اس منصوبے کو بین الاقوامی سطح پر بیداری پیدا کرنے، بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے مہم چلانے اور ممکنہ فوجی تیاریوں کو دھیان میں رکھ کر دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 1971 میں بنگلہ دیش کی تعمیر ممکن ہوئی تھی تو اس منصوبے کو بھی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔
شمال مشرقی ہندوستان کے جغرافیائی چیلنجز کو دیکھتے ہوئے یہ مسئلہ مزید سنگین ہو جاتا ہے۔ یہ علاقہ نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش سے گھرا ہوا ہے اور چین کے قبضے والا تبت بھی اس کے نزدیک ہے۔ یہ ’چکن نیک‘ علاقہ صرف 22 کلومیٹر چوڑا ہے جو اسے سیکورٹی کے نقطہ نظر سے حساس بناتا ہے۔ بنگلہ دیشی بنیاد پرست عناصر کی طرف سے اس علاقے پر قبضے کا خدشہ پہلے بھی ظاہر کیا جا چکا ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان کے سیکورٹی خدشات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
رنگپور ڈویژن کی جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس کے مغرب میں مغربی بنگال کے شمالی اور جنوبی دیناج پور اضلاع، اس کے شمال مغرب میں دارجلنگ ضلع کا سلی گوڑی سب ڈویژن، اس کے شمال میں جلپائی گوڑی اور کوچ بہار اضلاع اور اس کے مشرق میں آسام کے دھوبری اور جنوبی سالمارا اضلاع ہیں۔ اس کے علاوہ میگھالیہ کے مغربی اور جنوب مغربی گارو پہاڑی علاقے بھی اس سے متصل ہیں۔ یہ علاقہ 3 طرف سے ہندوستانی سرحد سے گھرا ہوا ہے۔ اگر رنگ پور کو ہندوستان میں ضم کر دیا جاتا ہے تو ’چکن نیک‘ کوریڈور کی چوڑائی 150 کلومیٹر تک بڑھائی جا سکتی ہے، جس سے یہ خطہ سیکورٹی کے نقطہ نظر سے مضبوط ہوگا۔
اسی طرح چٹاگانگ ڈویژن کا چٹاگانگ پہاڑی علاقہ تین اضلاع کھگراچھڑی، رنگامتی اور بندربن پر مشتمل ہے۔ یہ اضلاع تریپورہ اور میزورم کی سرحدوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس خطے کو الگ کرنے اور ایک نیا ملک بنانے سے نہ صرف مذہبی اقلیتوں کو تحفظ ملے گا بلکہ ہندوستان کے شمال مشرقی خطے کے سیکورٹی چیلنجوں میں بھی کمی آئے گی۔ واضح ہو کہ یہ تجویز فی الحال صرف زیر بحث ہے، لیکن یہ مسئلہ آہستہ آہستہ بین الاقوامی سطح پر اٹھایا جانے لگا ہے۔ اگر سنجیدگی سے کام کیا جائے تو یہ بنگلہ دیش میں مذہبی اقلیتوں کے لیے ایک مستقل حل ثابت ہو سکتا ہے اور ہندوستان کی اسٹریٹجک سیکورٹی کو بھی مضبوط کر سکتا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی آبادی تقریباً 1.3 کروڑ ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔