’اَربن نکسل‘ آخر کس بَلا کا نام ہے؟

شہر میں رہنے والے ہروہ لوگ جو اقتدارکی مخالفت کرتے ہیں انھیں اَربن نکسل یا ان کا حامی کہا جا رہا ہے۔ ان میں طرح طرح کے مارکسوادی، سماجوادی، اعتدال پسند، حقوق انسانی کارکن اور صحافی وغیرہ بھی شامل ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ان دنوں ’اَربن نکسل‘ یعنی شہری نکسل لفظ کافی استعمال ہو رہا ہے۔ کتاب سے لے کر مضامین اور ٹی وی مباحث کی ایک پوری سیریز اس کے ارد گرد تیار کی جا رہی ہے۔ ہندوستان کے کئی شہروں میں وکیلوں، مصنّفین، حقوق انسانی اور سماجی کارکنان کی گرفتاریاں ہوئی ہیں جنھیں میڈیا کے ایک حصے میں اَربن نکسل کہہ کر مخاطب کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ حکومت یا سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے اربن نکسل سے متعلق باضابطہ طور پر کوئی بیان نہیں آیا ہے۔ اس کے باوجود اَربن نکسل نام کی اس بلا کو سمجھنا کئی وجہ سے ضروری ہے۔ عام لوگوں کی بات تو دور ہے، جو لوگ زور و شور سے اس لفظ کا استعمال کر رہے ہیں انھیں بھی شاید ہی اس کی سمجھ ہے۔ یہ بات ہندوستان میں مارکسزم اور نکسلزم کا کوئی بھی طالب علم بڑے ہی اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہے۔ عوام میں جتنی جانکاری دستیاب ہے اس کی بنیاد پر یہ لگتا ہے کہ اَربن نکسل نام کا یہ لفظ نیم تعلیم یافتہ اور ناخواندہ ہندوستانی جنوب پنتھ اور اقتدار حامی میڈیا کی دماغی پیداوار ہے۔

ہم پہلے یہ جانتے ہیں کہ نکسلزم کیا ہے، بعد میں ہم اس کے شہری یا دیہی قسم پر بات کریں گے۔ 1967 میں مغربی بنگال کے ایک گاؤں نکسل باڑی میں زمینداروں کے خلاف مسلح انقلاب ہوا تھا۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم) یعنی سی پی ایم سے بعد میں اسی سوال پر الگ ہوئے ایک گروپ نے چارو مجومدار کی قیادت میں یہ تحریک چلائی تھی۔ ان کا واضح طور پر ماننا تھا کہ سی پی ایم اپنے سیاسی مقاصد سے بھٹک چکی ہے اور انھوں نے یہ الگ راستہ اختیار کیا تھا۔ بعد میں نکسل باڑیانقلاب کا خاتمہ ہو گیا لیکن کئی کمیونسٹوں نے اس تحریک میں اپنی عقیدت ظاہر کرتے ہوئے الگ الگ کمیونسٹ پارٹیوں یا گروپوں کی تشکیل کی۔ وہ خود کو نکسل وادی نظریہ سے جڑا مانتے تھے، اس لیے انھیں نکسل کہا گیا۔

حالانکہ مسلح لڑائیوں سے ایسے زیادہ تر گروپ یا تو دور رہے یا پھر انھوں نے بعد میں اسے کارگر نہیں مانتے ہوئے چھوڑ دیا۔ جہاں تک شہر یا گاؤں کا سوال ہے تو نکسل باڑی تحریک کے وقت اور اس کے بعد بھی شہروں میں رہنے والےنوجوان طلبا، مزدوروں اور دانشوروں نے اس تحریک کی حمایت کی تھی۔ پھر یہ سوال کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ کس طرح انھیں اَربن نکسل یا نکسل کہا جائے؟ ہندوستان میں مارکسوادیوں کی ہی کئی نسلیں ہیں اور شاید اس سے تھوڑی ہی کم نکسلوادیوں کی ہوں گی۔ اور ان میں آپسی اتفاق سے زیادہ نااتفاقی ہے اور ماضی میں تو کافی تلخ نااتفاقی رہی ہیں جو 80 اور 90 کی دہائی کے اخباروں کے صفحات میں درج ہے۔

ایسے ماحول میں یہی لگتا ہے کہ اینٹی نیشنل نام کی دوا کے ایکسپائر ہو جانے کے بعد اقتدار حامی جنوب پنتھی نے اقتدار کی تنقید کرنے والوں کے خلاف اَربن نکسل نام کی نئی دوا ایجاد کر لی ہے تاکہ وہ اپنے خالی دماغ کی سانسوں کو تھوڑا مزید وقت تک چلا سکیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Aug 2018, 7:22 PM