خطرہ کے نشان سے اوپر بہتی جمنا نے کسانوں کی کھیتی تباہ کی

جمنا کے کنارے بسے غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے کسان اپنی جان بچانے کے مقصد سے عارضی کیمپوں میں تو چلے گئے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے انھیں کوئی بنیادی سہولت مہیا نہیں کرائی گئی ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: ملک کی راجد ھانی سے ہوکر گزرنے والی جمنا ندی ہنوز خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہی ہے ۔ حالانکہ ہتھنی کنڈ باندھ سے پانی پہلے کے مقابلے کم چھوڑا جا رہا ہے جس سے آبی سطح میں کچھ کمی ضرور دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن خطرہ برقرار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جمنا ندی کے آبی سطح میں اس اضافہ کے سبب تقریبا ً 13 ہزار 915 لوگ متاثر ہوئے ہیں ۔ یہ متاثرین اپنا سامان لے کر جمنا کے کنارے بنائے گئے عارضی کیمپوں میں پناہ لے رہے ہیں ۔ دہلی کے شاستری پارک اور عثمان پورمیں لگے ان کیمپوں کا جب ’قومی آواز‘ کے نمائندہ نے دورہ کیا تو کئی طرح کی باتیں نکل کر سامنے آئیں۔

کیمپ میں مقیم لوگوں سے بات چیت کرنے پر پتہ چلا کہ جو عارضی کیمپ حکومت کی جانب سے لگایا گیا ہے اس میں سہولتیں ناکافی ہیں۔ کیمپ میں پناہ گزین کھڑی رام نے ’قومی آواز‘کو بتایا کہ ’’میں یہاں 5سالوں سے رہ رہا ہو ں اور سیلاب آنے سے ہمیں کا فی دقت ہورہی ہے۔ حکومت کی طرف سے ابھی تک ہمیں اور کوئی مدد نہیں مل پا ئی اور نہ ہی کو ئی ہمیں دیکھنے والا ہے۔‘‘ جمنا کے پاس گلاب کے پھول کی کھیتی کرنے والے ایک کسان خانوادے کے فرد سونو چوہان کہتے ہیں کہ ’’ہم یہاں سالوں سے کھیتی کر ررہے ہیں ۔ سیلاب آنے کے سبب ہماری ساری محنت تو بے کار گئی ہی، فصل کا جو نقصان ہوا وہ الگ۔‘‘

جمنا کی آبی سطح میں اضافہ سے متاثر کسم چوہان بھی عارضی کیمپ میں پناہ لیے ہوئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہم کیمپ میں اپنے مویشیوں کے ساتھ ہیں او ر ان کی دیکھ بھا ل کرنے میں بھی ہم کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’جب سے سیلاب آیا ہے بس اسی دن سرکاری آدمی مدد کے لئے آئے تھے۔ اس وقت سے اب تک کوئی نہیں آیا ،اور نہ ہی پینے کے پا نی کا کوئی ٹینکر سرکار نے ہمارے لئے نہیں بھیجا ہے ۔‘‘ کیمپ میں موجود ایک دیگر شخص شاداب کا کہنا ہے کہ ’’میں اور میرے والدین کھیتی کرتے ہیں اور بکریاں پالتے ہیں۔ جمنا میں پانی بھرنے کی وجہ سے مویشیوں کی دیکھ بھال کرنا اور چارا، گھاس پھوس وغیرہ لانے میں ہمیں کافی دقت ہورہی ہے۔‘‘ شاداب مزید کہتے ہیں کہ ’’ہم بریلی کے رہنے والے ہیں ۔ میرے والد نبی شیر کافی سالوں سے یہاں پر کھیتی کرکے اپنا پیٹ پال رہے ہیں ۔ ہم تو ادھر ادھر کرکے وقت کاٹ رہے ہیں لیکن ہماری عورتوں کو زیادہ پریشانیا ں ہو رہی ہیں ۔‘‘

سنتوشی نامی خاتون بھی حکومت کے ذریعہ سہولت مہیا نہ کرائے جانے سے مایوس نظر آتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ’’سامنے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کانوڑ لے جا رہے لوگوں کے لئے کتنی سہولتیں ہیں اور ہماری مدد کے لئے کو ئی ہاتھ بھی نہیں بڑھا رہا۔ ہم اس جگہ 5 سال سے رہ رہے ہیں جس میں میرے ساتھ میرے شوہر، 3 بچے اور دیور بھی ساتھ ہیں۔ ہماری کھیتی تباہ ہوچکی ہے۔ کوئی لیڈر بھی ابھی تک ہمارا حال دیکھنے نہیں آیا۔‘‘

(محمد تسلیم کے اِن پٹ کے ساتھ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 Aug 2018, 9:00 PM
/* */