اتر پردیش میں تھم نہیں رہی موب لنچنگ! ریاستی پولس بے بس

اتر پردیش میں بچہ چوری کے شبہ میں بڑھ رہی موب لنچنگ کے واقعات پر پولس کا دعویٰ ہے کہ ایسے واقعات کی جانچ کے لیے سائبر سیل کے ساتھ سوشل میڈیا پر نگاہ رکھنے کے لیے پولس محکمہ لگاتار مستعد بنا ہوا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

اتر پردیش میں بچہ چوری کے شک میں بڑھ رہی موب لنچنگ (بھیڑ کے تشدد) کے واقعات پر پولس کا دعویٰ ہے کہ اس کی ہر واقعہ پر گہری نظر ہے۔ ایسے واقعات کو جانچنے کے لیے سائبر سیل کے ساتھ سوشل میڈپا پر نگاہ رکھنے کے لیے پولس محکمہ لگاتار مستعد بنا ہوا ہے۔ لیکن ماہرین قانون ایسے واقعات میں قانون کی سستی کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ پولس محکمہ کے افسر نے بتایا کہ ایسے واقعات میں سب سے زیادہ سوشل میڈیا کا تعاون ہے۔ ایسی افواہ پھیلانے والوں پر پولس سخت نگاہ رکھے ہوئی ہے۔ ایسے اعمال کا انجام دینے والوں کے خلاف آنے والے وقت میں سخت کارروائی کی جائے گی۔

قانون کے ماہرین اور سینئر وکیل پدم کیرتی نے آئی اے این ایس خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ "پولس پیٹرولنگ گراونڈ لیول پر نہیں ہو رہی ہے۔ اسی وجہ سے ایسے و اقعات بڑھ رہے ہیں۔ جتنے بھی ایسے واقعات ہو رہے ہیں، یا تو یہ دیہی علاقے میں ہو رہے ہیں، یا پھر ان علاقوں میں جہاں غیر تعلیم یافتہ لوگ زیادہ ہیں۔" انھوں نے کہا کہ تعلیم اور اقتصادی پسماندگی کے سبب بھی ایسے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ مذہبی کشیدگی کے سبب بھی ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ مارنے والے سوچ رہے ہیں کہ حکومت انھیں بچائے گی۔ مدھیہ پردیش میں اسے روکنے کے لیے قانون بنایا جا رہا ہے، جس میں دس سال سزا کا انتظام ہے۔ لیکن اس سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ اس میں تو قتل کی دفعہ 24/302 کا قانون بنایا جانا چاہیے۔ قانون کا خوف لوگوں سے ختم ہو رہا ہے۔ اسی لیے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اس سے نمٹنے کے لیے بہت سخت قانون بنائے جانے کی ضرورت ہے۔


ماہر قانون نے بتایا کہ قصبائی علاقوں میں ایسے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔ ایسے واقعات کو سوشل میڈیا کے ذریعہ فروغ ملتا ہے۔ مثلاً، کسی علاقے میں کوئی مسلم طبقہ کا شخص گائے پالتا ہے تو اسے تشدد پسند مذہبی لوگ مارنے کی سوچتے ہیں اور اس کے بعد اسے سوشل میڈیا پر مشتہر بھی کرتے ہیں۔ جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ گاؤں کے چوکیدار کو موبائل فون دے کر ایسے واقعات کو روکنے کے لیے ہدایت دی جانی چاہیے۔

ایڈیشنل چیف سکریٹری (داخلہ) اونیش اوستھی کا کہنا ہے کہ "بچہ چوری کے شبہ میں ہو رہے قتل کو لے کر کوئی جنرل اِن پٹ نہیں ہے۔ پھر بھی ایسے واقعات کو روکنے کے لئے پہلے ہی سے قانون بنے ہوئے ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے احکام بھی جاری کر دیئے گئے ہیں۔"


حال کے دنوں میں ہوئے واقعات پر غور کیا جائے تو اتر پردیش کے متھرا، اآگرہ، فیروز آباد اور ایٹاوہ سمیت دیگر مقامات پر بھیڑ کے ذریعہ بچہ چوری کے شک میں کئی لوگوں کو پیٹا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Aug 2019, 10:10 AM