’میں نے دل سے کہا، ڈھونڈ لانا خوشی، نا سمجھ لایا غم، تو یہ غم ہی سہی‘، عرفان نہ رہے

بالی ووڈ کے معروف اداکار عرفان خان کا ممبئی کے ایک اسپتال میں علاج کے دوران انتقال ہوگیا، چند روز قبل ہی ان کی ماں چل بسی تھیں۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

اداکار عرفان خان کو منگل اٹھائیس اپریل کو طبیعت بگڑنے کے بعد ممبئی کے کوکلا بین ہسپتال میں داخل کيا گیا تھا اور 29 اپریل کی صبح ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ 54 برس کے تھے۔ انہوں نے سوگواروں میں دو بیٹے اور اہلیہ کو چھوڑا ہے۔ گزشتہ سنیچر یعنی پچیس اپریل کو ہی جے پور میں ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا لیکن لاک داؤن کے سبب وہ ان کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے نہیں پہنچ سکے تھے۔
ان کے اہل خانہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عرفان خان نے اپنی زندگی کے آخری لمحات اپنے اہل و اعیال اور ایسے قریب ترین افراد کے ساتھ گزارے جن کی انہیں بہت زیادہ فکر رہتی تھی۔ عرفان کی موت سے عین قبل ہی ان کے ترجمان نے ان کے انتقال کی خبروں کی یہ کہہ کر سختی سے تردید کی تھی کہ وہ اب بھی زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں تاہم اس کے تھوڑی دیر بعد ہی اعلان کیا گيا کہ اب تمام امیدیں ختم ہوچکی ہیں۔

عرفان خان گزشتہ تقریباﹰ دو برس سے دماغ کے ٹیومر کے مرض میں مبتلا تھے۔ پہلی بار سن 2018 میں جب انہیں اس بیماری کا پتہ چلا تو وہ علاج کے لیے لندن گئے تھے اور کئی ماہ کے علاج کے بعد واپس آئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہے اور واپسی کے بعد انہوں نے اپنی آخری فلم ’انگریزی میڈیم‘ میں کام بھی کیا تاہم شوٹنگ کے دوران کئی بار ان کی طبیعت خراب ہوئی، جس کے سبب وہ پھر علاج کے لیے لندن گئے اور واپس آکر اپنی فلم کی شوٹنگ مکمل کی۔


ان کی موت پر بالی وڈ کی تمام معروف ہستیوں، اداکاروں اور فلم سازوں نےگہرے صدمے کا اظہار کیا ہے اور تعزیتی پیغاموں کا سلسلہ جاری ہے۔ اداکار امیتابھ بچّن نے اس خبر پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹر پر لکھا،’’ابھی ابھی عرفان خان کے انتقال کی خبر ملی ہے۔۔۔ یہ انتہائی پریشان کن اور بہت افسوسناک خبر ہے۔ ایک زبردست ٹیلنٹ ۔۔ ایک قابل احترام ساتھی جس کا سنیما کی دنیا میں بہت بڑا تعاون رہا ہے، بہت جلدی چھوڑ کر چلا گیا۔ ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ میری طرف سے بہت ساری دعائیں۔‘‘

بالی وڈ کے معروف فلم ساز مہیش بھٹ نے اس موقع پر عرفان خان کے ساتھ اپنی ایک پرانی تصویر شیئر کی اور لکھا ہے،’’میں نے دل سے کہا، ڈھونڈ لانا خوشی، نا سمجھ لایا غم، تو یہ غم ہی سہی۔۔۔ میں اس نغمے کا اس وقت گنگنانا یاد کرہا ہوں جب عرفان خان میں ٹیومر کی تشخیص ہوئی تھی۔ وہ مسکرائے تھے۔ ہمارے دوست تمہاری وہ مسکراہٹ میرے ساتھ ہمیشہ ہمیش کے لیے رہےگی۔‘‘


عرفان خان سات جنوری سن1967 میں جے پور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد اور والدہ کا تعلق ریاست راجستھان کے ضلع ٹونک سے تھا۔ وہ ایک اچھے کرکٹ کھلاڑی بھی تھے لیکن اداکاری کا شوق انہیں ممبئی لے آيا۔ انہوں نے سب سے پہلے سن 1988میں میرا نائر کی مشہور زمانہ فلم ’سلام بامبے‘ میں کام کیا تھا۔ لیکن اس کے بعد انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی تاہم 2001 ء میں برطانوی فلم ’دی واریئر‘ میں ان کی اداکاری دیکھ کر کے فلم ساز ان کی جانب متوجہ ہوئے اور پھر سے انہیں کام ملنا شروع ہوا۔

عرفان نے ہالی وڈ کی بعض فلموں میں کام کرنے کے ساتھ ہی کئی ٹی وی پروگرامزمیں کام کیا تھا۔ فلموں میں اداکاری کے لیے نیشنل ایوارڈ کے ساتھ ساتھ انہیں کئی بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا اور حکومت نے بھی انہیں سرکاری اعزاز پدم شری سے نوازا تھا۔


سن 2004 کی فلم مقبول کے بعد وہ یکے بعد دیگرے کئی فلموں میں بہترین اداکاری سے شہرت کی بلندیوں تک پہنچے۔ دی نیم سیک، لائف ان اے میٹرو، پان سنگھ تومر، دی لنچ بکس، پیکو، تلوار اور نو بیڈ آف روزیز جیسی ان کی کچھ یادگار فلمیں ہیں جس کے لیے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔