15 اگست کو ہندوستانی پرچم پھاڑنے والا لڑکا مسلم نہیں ہندو

محض 15-14 سال کے بچے نے شرارتاً ہندوستانی پرچم کو پھاڑنے کا ایک ویڈیو بنایا اورکہا کہ ’میں پکّا مسلمان ہوں‘۔ لیکن یہ بچہ مسلم نہیں ہندو تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ مذہبی پولرائزیشن کا اثر بچوں پرپڑ رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آصف سلیمان

گزشتہ ہفتہ آزادی کے جشن کی خماری کے درمیان 15 اگست کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو خوب شیئر کیا گیا جس مین ایک لڑکا کاغذ سے بنے ہندوستانی پرچم کو پھاڑتے ہوئے کہتا نظر آ رہا ہے کہ ’’میں پکّا مسلمان ہوں‘۔ لوگوں نے اس ویڈیو پر قابل اعتراض تبصرے بھی کیے اور اس ویڈیو کو ٹوئٹر و فیس بک پر تیزی کے ساتھ وائرل کر دیاگیا۔ لیکن دوسرے ہی دن اس ویڈیو کی قلعی اس وقت کھل گئی جب ایک نیا ویڈیو سامنے آیا۔ اس نئے ویڈیو سے ظاہر ہو رہا ہے کہ 15 اگست کو بنائے گئے ویڈیو میں جو لڑکا خود کو مسلمان کہہ رہا ہے وہ دراصل ہندو ہے۔

16 اگست کو جو ویڈیو منظر عام پر آیا اس میں کچھ لوگ 15-14 سال کے لڑکے کی پٹائی کر رہے ہیں اور یہ وہی لڑکا ہے جس نے 15 اگست کے ویڈیو میں خود کو مسلمان بتایا ۔ جب لوگ اس لڑکے پر اپنی شناخت ظاہر کرنے کے لیے دباؤ بناتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ ’’میں ہندو ہوں‘‘۔ ساتھ ہی یہ لڑکا اپنی حرکت کے لیے معافی بھی مانگتا ہے۔ 16 اگست کا ویڈیو بنانے والے اسی لڑکے کے شہر کے لوگ ہندوستانی پرچم پھاڑنے اور خود کو مسلمان بتانے سے بہت ناراض ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ لڑکے کی پٹائی بھی کرتے ہیں اور اسے اپنی شناخت ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ معافی مانگنے کا دباؤ بھی بناتے ہیں۔

تازہ ویڈیو کے منظر عام پر آنے سے یہ تو واضح ہو گیا کہ قصداً مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے اور ہندو سماج میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنے کے لیے پرچم پھاڑنے والا ویڈیو تیار کیا گیا۔ یہ پورا واقعہ ’رول ماڈل ریاست گجرات‘ کا ہے۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولس نے ویڈیو میں نظر آ رہے لڑکے اور ویڈیو بنانے والے لڑکے کا پتہ لگالیاہے۔ دونوں لڑکے ہندو طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور پولس نے انھیں فیملی کے ساتھ پولس اسٹیشن بلا کر پوچھ تاچھ بھی کی ہے۔ ایک نیوز چینل سے بات چیت میں سورت واقع امرولی پولس اسٹیشن کے انسپکٹر نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ دونوں لڑکوں کا تعلق ہندو طبقہ سے ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’دونوں لڑکوں نے شرات کے تحت یہ حرکت کی تھی اور اس کے پیچھے کوئی سازش نہیں تھی اس لیے دونوں کو تنبیہ کر کے چھوڑ دیا گیا۔‘‘

اس پورے معاملے پر نظر ڈالنے کے بعد جو سب سے بڑا سوال اٹھتا ہے وہ یہ کہ آخر کس طرح ایک 15-14 سال کا نوجوان شرارت کرنے کے لیے اس طرح کے متنازعہ ایشو کا استعمال کرتا ہے۔ اتنی کم عمر لڑکے کے ذہن میں اس طرح کی باتیں آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں مذہبی پولرائزیشن کا کتنا منفی اثر پڑ رہا ہے۔ حالانکہ یہ پہلا معاملہ نہیں ہے جب مسلمانوں کے تئیں نفرت پھیلانے کے لیے ہندو طبقہ سے تعلق رکھنے والے فرد نے خود کو مسلم بتا کر قابل اعتراض عمل کیا ہو۔ اس سے قبل ہندو شخص کے ذریعہ خود کو مسلمان بتا کر پاکستانی پرچم لہرانے کا معاملہ بھی سامنے آ چکا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔