تنوی اور انس کو مل گیا پاسپورٹ، غلط ثابت ہوئے وِکاس مشرا

وِکاس مشرا کے ذریعہ تنوی سیٹھ سے غیر ضروری سوال پوچھے جانے اور ذلیل کیے جانے کا معاملہ جب بہت زیادہ پھیل گیا تو انھیں روٹین ٹرانسفر کا حوالہ دے کر لکھنؤ سے گورکھپور منتقل کر دیا گیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

تنوی سیٹھ اور انس صدیقی کے پاسپورٹ کا تنازعہ آخر کار ختم ہو گیا اور مقامی پاسپورٹ دفتر کے ذریعہ دونوں کا پاسپورٹ انھیں سونپ دیا گیا۔ لکھنؤ باشندہ تنوی سیٹھ اور انس صدیقی گزشتہ 15 دنوں سے نہ صرف اخبارات کی سرخیاں بن رہے تھے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی ان کے پاسپورٹ کو لے کر خوب بحث و مباحثہ چل رہا تھا۔ حتیٰ کہ مرکزی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بھی اس معاملے میں ٹوئٹر پر ٹرول کیا گیا اور ان کے خلاف نازیبا الفاظ بھی استعمال کیے گئے۔

آج مقامی پاسپورٹ افسر پیوش ورما نے دونوں کا پاسپورٹ ان کے حوالے کیے جانے کی اطلاع دی۔ دراصل وزارت خارجہ کے جون 2018 کے ضابطوں کے مطابق پولس رپورٹ میں 6 اہم نکات میں اگر درخواست کنندہ پر کوئی مجرمانہ کیس نہیں ہے اور اس کی شہریت پر کوئی تنازعہ نہیں ہے تو پاسپورٹ نہیں روکا جا سکتا۔ اسی کی بنیاد پر تنوی اور انس کو پاسپورٹ جاری کیا گیا ہے۔ سرکار کی ایک داخلی جانچ کے بعد یہ بھی کہا گیا کہ دستاویز کے لیے دفتر میں اپنا درخواست دینے گئے ہندو-مسلم جوڑے سے مذہب کے بارے میں غیر ضروری سوال پوچھنے والا لکھنؤ کا پاسپورٹ افسر غلط تھا اور اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔

بہر حال، اس درمیان وِکاس مشرا کا ٹرانسفر لکھنؤ سے گورکھپور کر دیا گیا ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ روٹین ٹرانسفر ہے، لیکن جس طرح سے تنوی-انس کے پاسپورٹ کا معاملہ گرمایا اور انھیں لکھنؤ سے ہٹایا گیا، لوگ اسے روٹین ٹرانسفر نہیں مان رہے۔ قابل ذکر ہے کہ تنوی سیٹھ اور انس صدیقی نے پاسپورٹ افسر پر مذہب کے نام پر ذلیل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ پاسپورٹ افسر وکاس مشرا نے تنوی سیٹھ کی شادی کے بعد نام بدل کر سعدیہ انس رکھے جانے اور بدلے نام کے کالم کو خالی چھوڑ دیے جانے پر ان سے سوال پوچھے تھے جس پر تنوی نے اعتراض کیا۔ یہ معاملہ جب میڈیا میں پھیلا تو وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی تنوی سیٹھ کے حق میں بات کی جس کے بعد سوشل میڈیا میں تنگ ذہن لوگوں نے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ سشما سوراج کو لے کر کئی طرح کے ٹوئٹ کیے گئے۔ ان کے خلاف ٹرولرس نے ایسی زبان کا استعمال کیا جس کا تذکرہ کرنا بھی مناسب نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔