عام انتخابات کے مدنظر مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے سوشل میڈیا مہم شروع

ممبئی کے سماجی کارکن عامر ادریسی نے مسلم ووٹوں کی تقسیم روکنے کے لیے ’ووٹ ہمارا بات ہماری‘ عنوان سے ملک گیر سطح پر سوشل میڈیا مہم شروع کی ہے اور کہا ہے کہ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: مسلمانوں کو ملک کے سیاسی عمل میں حصہ لینے ، مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے والی سیاسی جماعت کو ہی ووٹ دینے اور آئندہ عام انتخابات میں مسلم ووٹوں کی تقسیم روکنے کے سلسلے میں ’ووٹ ہمارا بات ہماری‘ کے عنوان سے لوگوں کی رہنمائی کے لئے ملک گیر سطح پر سوشل میڈیا مہم شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ممبئی کے معروف سیاسی سماجی کارکن عامر ادریسی نے آج یہاں کہا کہ مسلم ووٹروں کو اپنا سیاسی اور انتخابی ایجنڈا خود طے کرنا ہوگا۔

عامر ادریسی نے یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ مسلم ووٹروں بالخصوص مسلم نوجوانوں کی رہنمائی کے لئے ایک ٹول فری نمبر جاری کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فون نمبر 8010020040 پر مسڈ کال کرکے کوئی بھی شخص اس مہم میں شامل ہوسکتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اس نمبر پر مسڈ کال دیتے ہی کال کرنے والے کو ایک کنفرمیشن مسیج ملے گا۔ بعد میں انہیں مستقل طور پر اس نمبر سے جوڑدیا جائے گا۔ تاکہ وقتاً فوقتاً اہم اور ضروری اطلاعات پہنچائی جا سکیں اور انتخابات میں درست رخ پرمسلم عوام کی رہنمائی کی جاسکے۔

عامر ادریسی نے کہا کہ ان کا مقصد مسلم ووٹروں کی رہنمائی کرنا ہے تاکہ وہ اپنے ووٹ کی قیمت اور اہمیت کو سمجھیں اور اس کا صحیح استعمال کریں ۔ انہوں نے بتایاکہ’’ ہم نے 13 اکتوبر کو یہ مسڈ کال نمبر جاری کیا تھا ، ابتک ہمیں لگ بھگ ساڑھے گیارہ ہزار مسڈ کال موصول ہوچکے ہیں۔ ہمارا ہدف اسے 25 لاکھ تک لے جانا ہے۔ ہم اسے ملک کے کونے کونے تک پہو نچائیں گے۔‘‘

ایک سوال جواب میں عامر ادریسی نے کہا کہ ہم مسلمانوں کی تمام جماعتوں، تنظیموں اور اہم شخصیات کو ساتھ لیکراور ان کے مشورے سے کام کو آگے بڑھائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہے، اگر ہم نے ٹھیک طور پر کوشش کی تو نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک کی کوششوں کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ رہی کہ زمینی حقائق پر توجہ دیتے ہوئے ہم نے کام نہیں کیا بلکہ ہم صرف بیان بازی کرتے رہے۔

عامر ادریسی نے مسلمانوں کو سیاسی لحاظ سے بااختیار بنانے کو اپنا ہدف قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیس کروڑ کی آبادی بہت بڑی آبادی ہوتی ہے اور اگر مربوط و منظم کوشش کی جائے تو مسلمان بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک نیا بیانیہ طے کرنا ہوگا۔ ہمیں کھل کر بولنا ہوگا کیوں کہ خاموشی کبھی کبھی پریشان کن ہوجاتی ہے۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں اعتراف کیا کہ ان کی اس کوشش سے 2019میں بہت کچھ نہیں بدل جائے گا لیکن یہ ایک مثبت آغاز ضرور ثابت ہوگا۔کیوں کہ یہ کام صر ف الیکشن کے مدنظر نہیں کیا جارہا ہے بلکہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔