فرانس میں ’پیلی جیکٹ‘ والوں کے مظاہرے جاری، سات سو افراد گرفتار

فرانس میں گیس کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے اب شدید تر ہو گئے ہیں۔ یہ مظاہرے اب فرانسیسی دارالحکومت کے بعد کئی دیگر شہروں میں بھی پھیل رہے ہیں۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

فرانس ميں Yellow Vests یا زرد جیکٹیں پہن کر ان مظاہروں میں شریک شہریوں کی حکومت مخالف تحريک کے دوران گرفتار کیے گئے افراد کی تعداد اب سات سو سے تجاوز کر گئی ہے۔ ملکی وزير داخلہ کے مطابق پیرس میں ہونے والے اس احتجاج ميں قريب اکتيس ہزار افراد شریک تھے۔ مظاہرین نے اپنی تعداد کے بارے میں ملکی وزیر داخلہ کے بیانات سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی تعداد 31 ہزار سے کہیں زیادہ بتائی ہے۔

مظاہرين کو منتشر کرنے کے ليے پوليس نے مختلف مقامات پر آنسو گيس بھی استعمال کی۔ يہ احتجاجی تحريک ايندھن کی قيمتوں ميں اضافے کے خلاف شروع کی گئی تھی جو اب اپنے چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس دوران ہر ہفتے کے اختتام پر مختلف شہروں ميں احتجاج کيا جاتا ہے۔ آج ہفتہ آٹھ دسمبر کو کيا جانے والا احتجاج اس سلسلے کے سب سے بڑے مظاہروں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔

مارسے بھی مظاہروں کی لپیٹ میں

فرانس کے جنوبی بندرگاہی شہر مارسے میں بھی زرد جیکٹوں والے مظاہرین کی پولیس کے ساتھ ہفتے کی دوپہر جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں زخمی ہونے یا گرفتار کر لیے جانے والوں کے بارے میں کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ مظاہرین ملکی صدر ماکروں کے خلاف شدید نعرے بازی کر رہے تھے۔

ترک صدر کی طرف سے بھی تنقید

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی جانب سے فرانس میں مظاہرین کے خلاف کی جانے والی پولیس کارروائی پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ انہوں نے پولیس کی طرف سے طاقت کے بےجا استعمال کو بھی ’غلط اور ناجائز‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان مظاہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’یورپ کا اہم ملک فرانس جمہوریت کے امتحان میں ناکام ہو گیا ہے‘۔

صدر رجب طیب ایردوآن کا مزید کہنا تھا کہ جمہوریت میں مظاہرین کا احتجاج کا حق بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے، جو آزادی اظہار کا حصہ بھی ہے۔ ’’اس کو بہت سخت انداز میں روکنا کسی بھی طور درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ صدر ایردوآن کے مطابق اسلام اور مہاجرین کی مخالفت کرنے والے سیاستدان اور عوامیت پسندی کے حامی اب ’اپنے ہی جال میں پھنس کر رہ گئے ہیں‘۔

بیلجیم میں بھی مظاہرے

دريں اثناء بيلجيم ميں بھی اسی طرز کی احتجاجی ريلياں جاری ہيں۔ بیلجیم میں بھی پولیس نے برسلز میں حکومتی دفاتر اور پارلیمنٹ کے قریب مظاہرین کے خلاف واٹر کینن کے ساتھ ساتھ آنسوگیس کا استعمال بھی کیا۔ مظاہرین نے پولیس کی طرف سے کھڑی کردہ رکاوٹوں کو روندنے کی کوششیں بھی کیں۔ ملکی پولیس نے 100 مظاہرین کو حراست میں لے لینے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ مظاہرین ملکی وزیر اعظم چارلس مشیل کے خلاف نعرے بازے کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے استعفے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔

اُدھر ہالینڈ کے شہروں ایمسٹرڈم اور روٹرڈم میں بھی فرانسیسی مظاہرین کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے پرامن مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ مظاہرین نے اٹلی کے ساحلی شہر Ventimiglia سے جڑی فرانسیسی سرحد کو بھی بند کر دیا ہے۔ اس سرحدی بندش کی اطالوی پولیس نے بھی تصدیق کر دی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔