کیا یہ’دین بچاؤ ملک بچاؤ‘ کانفرنس کے انعقاد کا صحیح وقت ہے؟

ملک میں نفرت کی دیوار سیمنٹ کی نہیں بلکہ ریت کی ہے اور یہ خود بخود ڈھہ جائے گی۔

کانفرنس کے بینر کی ایک تصویر 
کانفرنس کے بینر کی ایک تصویر
user

نیاز عالم

اب سے کچھ گھنٹے بعد پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان میں ’دین بچاؤ ملک بچاؤ‘ کانفرنس منعقد ہونے جارہی ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ایسی کسی کانفرنس کے انعقاد کے لئے یہ مناسب وقت ہے ۔ مناسب وقت کا سوال اس لئے کیونکہ ملک میں اس وقت بی جے پی اور آر ایس ایس خیالات سے جڑی تنظیمیں اکثریت اور اقلیت کا کھیل کھیل رہیں ہیں تو کہیں ایسی کانفرنس اس کھیل میں مددگار تو ثابت نہیں ہوں گی ۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس کانفرنس کے انعقاد میں شامل تنظیمیں قوم کے بجائے اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے میں کوشاں ہیں۔ کیا ان تنطیموں کی نظریں کچھ سرکاری عہدوں پر ہیں یا واقعی یہ ملی مسائل کے تئیں سنجیدہ ہیں۔ دراصل یہ باتیں اقلیتی لوگوں کے ایک بڑے طبقہ کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔

خانقاہ امدادیہ کے سجاد ہ نشین مصباح الحق امدادی کا کہنا ہے کہ دین بچاؤ مک بچاؤ دراصل ایک جماعت کے ذریعہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ انہوں نے سیدھے طور پر اس کانفرنس کو قومی اتحاد کے نام پر ایک دھوکہ قرار دیاہے۔ انہوں نے کہا کہ سبھی تنظیموں کے مشترکہ بینر کے تحت اس کانفرنس کا انعقاد ہونا چاہئے تھا اور اس مشترکہ بینر کی تشریح ہونی چاہئے تھی جو نہیں ہوئی۔ مصباح الحق نے کہا کہ دراصل اس کانفرنس کے ذریعہ حکومت کے سامنے اس بینر اور ادارہ کی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ بینر کی کوئی بات اس میں نہیں کی گئی جبکہ یہ دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ تمام مسلک اس ایک بینر کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ بہار کی زیادہ ترمعزز شخصیات اور تنظیمیں اس میں شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام خود فیصلہ کریں کہ یہ کس قسم کے اتحا کی باتیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ قوم کے خلاف ایک سازش ہے اور اس سازش میں شامل افراد اور تنطیموں کا بائیکاٹ کیا جانا چاہئے۔

بینر کی تصویر
بینر کی تصویر

پٹنہ کے بیہاٹ ہائی اسکول کے اردو کے استاد اور شاعر کاظم رضا بھی اس کانفرنس کو ایک خاص تنظیم کے سیاسی فائدہ کا ذریعہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس وقت اس طرح کی کانفرنس کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اس کے انعقاد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ منتظمین کا اس کانفرنس کے پیچھے کچھ سیاسی مقاصد ہیں۔ انہوں نے کہا منتظمین دراصل حکمراں جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لئے کر رہے ہیں۔ دراصل منتظمین حکمراں جماعت سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور ایسے لوگ جو بھی کام کرتے ہیں اس کے پیچھے ان کے سیاسی فائدہ چھپے ہوتے ہیں۔ ان میں کسی کو کسی ادارہ کا چیئرمین بننا ہے تو کسی کو کہیں کا صدر بننا ہے۔ کاظم رضا کہتے ہیں کہ صرف وہ ہی نہیں بلکہ کئی تنظیموں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ اگر شروع میں ہی ان سے بیٹھ کر بات چیت ہو جاتی تو اس کانفرنس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ انہوں نے کہا کہ ہرذی شعور شخص اس بات کو سمجھ رہا ہے کہ یہ کانفرنس کس کے لئے کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب امارت شرعیہ، پھلواری شریف کے جنرل سکریٹری انیس الرحمان قاسمی کا کہنا ہے کہ دین بچاؤ ملک بچاؤ کانفرنس کا یہی صحیح وقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی ضرورت تو کئی مرتبہ محسوس ہوئی اور سب سے زیادہ دسمبر ماہ میں ہوئی جب خواتین کے حقوق اور طلاق کو لے کر پارلیمنٹ میں بل پیش ہوا۔ اس بل کو پارلیمنٹ میں لانے سے محسوس ہوا کہ آئین میں جو اقلیتوں کو حقوق دیئے گئے ہیں انہیں ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس لئے ہم نے سوچا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ قوم کو ایک ہو کر اپنی بات ملک کے سامنے رکھنی چاہئے۔ یہ بات کسی ایک مذہب کی نہیں ہے بلکہ سبھی کی ہے۔ آج ایک کے ساتھ ہو رہا ہے تو کل دوسرے کے ساتھ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں نفرت کی دیوار سمنٹ کی نہیں بلکہ ریت کی ہے اور یہ خود بخود ڈھہ جائے گی۔ قاسمی نےکہا کہ ملک کی ترقی اورسلامتی کے لئے آئین کو بچانا ضروری ہے اور اس کانفرنس کے ذریعہ عوام کو اس پریشانی کی دلدل سے نکالنے کی کوشش ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بہار کی خواتین ونگ کی کو آرڈینیٹر ڈاکٹر مہ جبیں ناز کا کہنا ہے کہ ’’ہر مذہب لوگوں کو اتحاد اور انسانیت کا پیغام دیتا ہے۔ یہی وقت ہے جب اس طرح کی کانفرنس کے ذریعہ لوگوں کو بتایا جائے کہ جب ہم اپنے مذہب کی بات ہی نہیں مانیں گے تو ملک کیسے ترقی کرے گا‘‘۔ انہوں نے کہا آج ملک میں جس طرح کا ماحول بن رہا ہے اس لئے اس طرح کی کانفرنس کرنے کا یہی صحیح وقت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Apr 2018, 7:00 AM