اے ایم یو سے لفظ ’مسلم‘ ہٹانے کا مطالبہ سیاسی

رجسٹرار جاوید اختر نے حکومت کو لکھا تھا کہ’’یونیورسٹی کا نام اپنی تاریخ اور کردار کے تعلق سے ایک نظریہ دیتا ہے اور اسے محفوظ کرنا ہمارا آئینی فریضہ ہے۔‘‘

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فائل تصویر 
i
user

قومی آواز بیورو

یو جی سی (یونیورسٹی گرانٹ کمیشن ) کی تشکیل شدہ ایک کمیٹی کی جانب سے کی گئی وہ سفارش اب پھر خبروں میں ہے جس میں کہا گیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو) کے نام سے لفظ مسلم ہٹا دیا جائے۔ واضح رہے اس تعلق سے اس سال جون میں اس وقت کے رجسٹرار جاوید اختر نے حکومت کو اے ایم یو کا موقف تحریر کر دیا تھا ۔ اے ایم یو کی جانب سے اس سفارش کو بے تکا قرار دیا گیا تھا ۔اے ایم یو کا کہنا ہے کہ لفظ مسلم کو ہٹانا ادارہ کی قدیمی تاریخ اور اس کے خصوصی مقام کو نظر انداز کرنے والا فیصلہ ہوگا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق اے ایم یو کے اس وقت کے رجسٹرار جاوید اختر نے حکومت کو لکھا تھا، ’’یونیورسٹی کا نام اپنی تاریخ اور کردار کے تعلق سے ایک نظریہ دیتا ہے اور اسے محفوظ کرنا ہمارا آئینی فریضہ ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی نے غلط طریقہ سے نتیجہ نکالا ہے کہ اے ایم یو کا نام تبدیل ہونے کے بعد ہی اے ایم یو میں سیکولر اقدار کا جنم ہوگا۔

اس تعلق سے اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے صدر ارشاد احمد کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ پرانا ہے اور حکومت کی جانب سے وزیر برائے فروغ انسانی وسائل پرکاش جاوڈیکر نے اس تجویز کو سرے سے خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ بنارس ہندو یونیورسٹی سے لفظ ہندو اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لفظ مسلم ہٹانے کا کوئی سوال نہیں ہے ۔

ارشاد احمد کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ملک میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر کیا جا رہا ۔ انہوں نے کہا کہ ’’پہلی بات تو یہ کہ اس کمیٹی کے دائر ہ اختیار میں ہی نہیں تھا ۔ دراصل یونیورسٹی پر کچھ دھاندلی کے الزامت تھے جن کو اس کمیٹی کو دیکھنا تھا لیکن وہ دو ہاتھ آگے نکل گئے ۔ دراصل انتخابات سے پہلے یہ سب کچھ ہوگا۔ جبکہ ان کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ سب کچھ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے کیونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے ۔ یہ سب ا نتخابات کی وجہ سے کیا جارہاہے کیونکہ یہ لوگ اتر پردیش کے ضمنی انتخابات سے پہلے قبرستان سے جناح کو لے آئے تھے ۔ ان کو معلوم ہے کہ اس سب سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

اے ایم یو کے ایک سابق طالب علم این اے فاروقی کا کہنا ہے کہ ’’اس حکومت کا پردہ فاش ہو چکا ہے ۔ در حقیقت ان کے پاس اب مسلم دشمنی کا راستہ بھی نہیں بچا ہے کیونکہ جو مو ب لنچنگ یا دیگر طریقوں سے مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی تھی وہ پوری طرح ناکام ہو گئی ہے ۔کیونکہ ہندوستانی مسلمانوں نے سیکولر ہندو ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے ‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کبھی یہ گجرات کے 2002 کے ماڈل کو لے کر ، کبھی لنچنگ کو لے کر ، کبھی مسلمانوں کے کھانوں کو لے کر اور کبھی شریعت کو لے کر لگاتار جیت رہے تھے لیکن اب ہندوستانی عوام کو سب کچھ سمجھ میں آگیا ہے ‘‘۔

واضح رہے کہ اس کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر جو یو جی سی کی طرف سے صلاح دی گئی تھی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لفظ مسلم اور بی ایچ یو (بنارس ہندو یونیورسٹی) کے نام سے لفظ ہندو کو ہٹا دینا چاہئےتاکہ ان یونیورسیٹیوں کا سیکولر کردار نمایاں ہو سکے۔ کمیٹی نے صلاح دی تھی کہ ان یونیورسٹیز کو بنارس یونیورسٹی اور علی گڑھ یونیورسٹی کے ناموں سے پہچانا جانا چاہئے۔ اے ایم یو کے معاملہ میں یہ بھی سفارش کی گئی تھی کہ علی گڑھ یونیورسٹی کی جگہ سر سید یونیورسٹی بھی اے ایم یو کا نام کیا جا سکتا ہے۔

یو جی سی کی طرف سے قائم کی گئی ایک 5 رکنی کمیٹی نے یہ سفارش 25 اپریل کو انسانی وسائل کی وزارت کو پیش کی تھی ۔ کمیٹی نے کہا تھا کہ لفظ مسلم کی موجودگی اس یونیورسٹی کے سیکولر کردار پر اثرانداز ہوتی ہے جسے مرکزی حکومت کی جانب سے فنڈ دیا جاتا ہے۔ اخبار میں اے ایم یو کے سابق رجسٹرار جاوید اختر کے نام سے جس جواب کا ذکر کیا گیا ہے وہ دراصل جون ماہ کا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔