پاکستانی انتخابات میں وعدے اور منشور پرانے

انتخابی مہم متنازعہ عدالتی فیصلوں،’خلائی مخلوق‘ کے شکوؤں، بدعنوانی کے الزامات اور دہشت گردی کے خوف کی نذر ہو گئی ۔ ماہرین کی رائے میں پاکستان کے بنیادی ایشوز پر بحث نہیں ہوئی۔

انتخابات نئے مگر وعدے اور منشور پرانے
انتخابات نئے مگر وعدے اور منشور پرانے
user

ڈی. ڈبلیو

جب عام انتخابات سن 2018 کی حتمی تاریخ کا اعلان ہوا تو پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نوازشریف کی نااہلی اور اسکے نتیجے میں سول ملٹری تعلقات کا بگاڑ واضح ہو چکا تھا۔ نوازشریف، مریم نواز اور انکی ٹیم نے پہلے براہ راست ’خلائی مخلوق‘ پر انگلی اٹھائی مگر ’ناصحوں‘ کے سمجھانے پر فوراً اپنی توپوں کے دہانے سپریم کورٹ کی جانب موڑ لیے۔ نوازشریف نے گاؤں گاؤں اور شہر شہر جا کر درد بھرا سوال پوچھا کہ آخر، ’مجھے کیوں نکالا‘۔ بیشتر آئینی اور قانونی ماہرین ڈھکےچھپے الفاظ میں اقرار کرتے رہے کہ نوازشریف پر آنے والا عتاب کسی کرپشن کا نتیجہ نہیں۔ نواز شریف کے خلاف دیے جانے والے تقریباً تمام فیصلوں کو قانونی اصطلاح میں،’کمزور‘ فیصلے قرار دیا گیا۔

تحریک لبیک پاکستان کا اسلام آباد اور پنڈی کے سنگم پر انتہائی اہم شاہراہ پر کئی ہفتے جاری رہنے والا دھرنا، عباسی حکومت کی بے بسی، ڈیڈ لاک، پولیس آپریشن اور مظاہرین کا جدید ترین ہتھیاروں (آنسو گیس کے شیل، ماسک وغیرہ) کے ساتھ غلبہ اور فوج کے مصالحتی کردار اور مظاہرین میں ’معاوضے‘ کی تقسیم جیسے واقعات سے بھی یہ تاثر قائم ہوا کہ نواز حکومت کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے جو ڈان لیکس کے بعد ’ملک دشمن‘ اور ’مودی کے یار‘ کی پارٹی قرار دے دی گئی تھی۔ اس دوران سیاسی پنڈت تعجب کا اظہار کرتے رہے کہ مسلم لیگ ن کو نہ صرف یہ کہ ’توڑا‘ نہیں جا سکا بلکہ اسکی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور وہ تمام ضمنی انتخابات جیت گئی۔ اسی دوران چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں ووٹوں کی خرید و فروخت، بلوچستان حکومت کی اکھاڑ پچھاڑ اور بالآخر اکثریت کے باوجود مسلم لیگ ن کی شکست سے مندرجہ بالا تاثر کو تقویت ملی۔

اس دوران انتخابات کا انعقاد غیر یقینی کا شکار رہا۔ نئی حلقہ بندیوں کے تنازعات اور دہشت گردی کے خدشات کے پیش نظر مسلسل یہ دعوے کیے جاتے رہے کہ انتخابات کو موخر کر دیا جائے گا اور ایک عبوری ’سیٹ اپ‘ قائم کر کے اسے چند برسوں کے لیے احتساب کے عمل کا نگران بنا دیا جائے گا۔ درحقیقت کئی جغادری سیاستدانوں نے اس نوعیت کے مطالبے بھی کیے۔ انتخابی مہموں کے آغاز سے انجام تک، کالعدم تنظیموں کی سیاسی دھارے میں شمولیت زیر بحث رہی۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی منشور جاری کرنے کا عمل انتہائی تاخیر سے ہوا اور کسی مکالمے اور مباحثے کا حصہ نہ بن سکا۔جلد ہی میڈیا نے بھی سنجیدہ مباحث کے بجائے روزمرہ کی سیاسی صورتحال اور انتخابی نعروں پر توجہ مرکوز کر لی۔ لہذا قبل از انتخابات سیاسی مباحث میں پاکستان کو درپیش مسائل، انکے ممکنہ حل اور حل کے طریقہ کار کے متعلق کوئی علمی اختلاف رائے سامنے نہیں آیا۔

پاکستان کی سیاسی اور انتخابی تاریخ میں منظر عام پر آنے والی منشوروں میں کچھ مسائل اور وعدے ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک پاکستان میں یہ مسائل حل نہیں ہو سکے اور ہر مرتبہ حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں نے انہیں حل کرنے کے وعدے کیے۔ ان میں آئین و قانوں کی بالادستی، تشدد، خوف اور استحصال سے تحفظ، سماجی اور معاشی طور پر کمزور طبقات کا تحفظ، دولت کی منصفانہ تقسیم اور بنیادی ضروریات (روٹی، کپڑا اور مکان اور اب پانی، بجلی وغیرہ) کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ترقیاتی اور شہری حقوق کی فراہمی کے وعدے کیے جاتے تھے۔

ہر انتخابات میں تقریباً ہرسیاسی جماعت کے منشور میں تعلیم اور صحت کی فراہمی، میرٹ کی حکمرانی، انصاف کی بالادستی، ریاستی اداروں کے درمیان توازن، خود مختار عدلیہ، حقیقی جمہوریت اور ملک ترقی اور خوشحالی میں ایشین ٹائیگر وغیرہ بنانے کے نعرے لگائے جاتے رہے ہیں۔ پاکستان سے غربت کو دور کرنے کا دعوی ایک مستقل انتخابی وعدہ رہا ہے۔ مذہبی جماعتیں ہمیشہ پاکستان میں ایک ایسے حقیقی اسلامی نظام قائم کرنے کے وعدے کرتی رہی ہیں جہاں شرعی قوانین کا اطلاق ہو اور اسلامی فلاحی ریاست سود سے پاک معیشت کے تحت اپنے شہریوں کے مفادات کا تحفظ اور کردار سازی کرے۔

اس مرتبہ بھی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشوروں میں مندرجہ بالا وعدوں کے ساتھ ساتھ کچھ نئے مسائل بھی مذکور ہوئے۔ تحریک لبیک نے اپنے منشور میں لکھا کہ وہ مسلم امہ کا ایک بلاک بنانے کے لیے مسلم ملکوں کو قائل کرے گی اور ایک نئی وزارت،’امر بل معروف و نہی عن المنکر‘ قائم کرے گی اور مخلوط نظام تعلیم کا خاتمہ ہو گا۔ پاکستان تحریک انصاف نے قرضوں کے خاتمہ کا وعدہ کی اور پولیس کو غیرسیاسی بنانے، ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بحال کرنے، فیڈرل ریوینیو بورڈ میں اصلاحات کرنے، کرپشن ختم کرنے اور لوٹے ہوئے خزانوں کو ملک میں واپسی لانے کے وعدے کیے اور دعوی کیا کہ ملک میں صنعتوں کا جال بچھا دیا جائے گا اور بیرونی سرمایہ کاری کی راہ کھل جائے گی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ وہ آئندہ پانچ برسوں میں پاکستان کو دنیا کی 25 بڑی معیشتوں میں شامل کر دیں گے۔ پیپلز پارٹی ہمشہ کی طرح، بھوک سے آزادی، سب کے لیے صحت، رہائش، مفت تعلیم، پانی اور نکاسی آب سے ساتھ ساتھ زرعی انقلاب برپا کرنے کا وعدہ کیا۔

کسی جماعت نے سنجیدہ طور پر سی پیک پر بات نہیں کی، کسی نے عالمی مالیاتی اداروں اور پاکستانی معیشت کے طویل المدتی سٹرکچرل مسائل پر ماہرانہ بات نہیں کی، کسی نے دہشت گردی کے خلاف بننے والے قومی ایکشن پلان کو اپنے انتخابی مکالموں کا حصہ نہیں بنایا۔ پاکستاں کے اپنے ہمسایوں یعنی بھارت، افغانستان، ایران سے باہمی تعلقات اور ان میں حائل پیچیدگیوں کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔ کیا روس اور چین کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات قائم کرنے کے لیے امریکا اور یورپ سے تعلقات خراب کرنے ضروری ہیں؟ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کا مسئلہ سیاسی مباحثہ کا حصہ نہ بن سکا۔ اگر کہیں ان مسائل پر بات ہوئی بھی تو بہت سطحی انداز میں ہوئی اور ٹی وی اینکروں کے تبحر علمی کے رحم و کرم پر رہی۔ ایسا محسوس ہوا کہ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں نے اپنی حدود اور اختیارات کا خود ہی تعین کر لیا ہے لہذا وہ خارجہ پالیسی، ایٹمی پالیسی، علاقائی پالیسی، سیکورٹی پالیسی اور حتی کہ معاشی پالیسی پر بھی عمومی نعروں سے بڑھ کر کوئی سنجیدہ بات کرنے سے گریز کیا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات کرتے ہوئے معروف سکالر، طاہر مہدی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت ارتقائی منازل طے کر رہی ہے اور یہاں جمہوری انتخاب اور جمہوری احتساب کا کلچر آہستہ آہستہ قائم ہو گا۔ انکا کہنا تھا کہ ہر قیمت پر جمہوری تسلسل میں ہی پاکستانی معاشرے کی ترقی کی امید پنہاں ہے۔

دوسری طرف جانے پہچانے ماہر سیاسیات رسول بخش رئیس کا ڈی ڈبلیو سے کہنا تھا،’’پاکستان کی سیاست پر مقتدر طبقات کا قبضہ ہے۔ یہی جاگیردار، وڈیرے ، صنعت کار ہیں جو پاکستان کی سیاست میں غالب ہیں اور انتخابات میں جیتنے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔