نومنتخب JNUSU صدر پر اے بی وی پی کا حملہ، موب لنچنگ کی تھی کوشش!

گزشتہ رات تقریباً 3 بجے اے بی وی پی طلبا ایک طالب علم پر حملہ آور تھے اور جب نومنتخب جے این یو طلبا صدر این سائیں بالاجی اسے بچانے پہنچے تو شرپسند وں نے ان پر ہی حملہ کر دیا اور موب لنچنگ کی کوشش کی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

جے این یو طلبا یونین انتخاب میں بایاں محاذ کے ذریعہ سبھی چار سیٹوں پر قبضہ کر لیے جانے سے پریشان اے بی وی پی نے جے این یو کا ماحول خراب کرنا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ رات تقریباً 3 بجے ان طلبا نے ستلج ہاسٹل میں پون مینا نامی طالب علم پر لاٹھیوں سے حملہ کیا اور جب طلبا یونین کے نومنتخب صدر این سائیں بالاجی ان کی دفاع کے لیے پہنچے تو اے بی وی پی طلبا نے موب لنچنگ کی کوشش کی۔ بالاجی نے اس پورے واقعہ کی تفصیل ایک خط میں دی ہے جو کہ انگریزی میں لکھی گئی ہے۔ اس خط کا اُردو ترجمہ پیش خدمت ہے جس کو پڑھ کر آپ کو معلوم ہوگا کہ جے این یو کی فضا کو کس طرح خراب کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

’’آج ودیارتھی پریشد کے طلبا نے اچانک طالب علموں پر حملہ کر دیا۔ مجھے ستلج میں معاملے کو دیکھنے کے لیے بلایا گیا۔ جے این یو ایس یو کے منتخب نمائندہ کے طور پر میں پون مینا کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے گیا جس پر اے بی وی پی کے لوگوں نے لاٹھیوں سے حملہ کیا تھا۔ وہاں پہنچنے پر جو میں نے دیکھا وہ دل دہلا دینے والا تھا۔ سوربھ شرما کی قیادت میں لوگ ہر اس طالب علم کے خون کے پیاسے تھے جسے وہ پون مینا کا دوست سمجھ رہے تھے۔ اور اس طرح سے وہ طلبا پر پر لاٹھیوں سے حملہ کر رہے تھے۔ ان لوگوں نے کھلے عام مجھے، گیتا اور وہاں موجود دوسرے طلبا کو دھمکی دی کہ اگر ہم میں سے کوئی تشدد کو روکنے کی کوشش کرے گا تو اسے اس کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ اس کے بعد گروپ موب میں تبدیل ہو گیا اور اس نے جے این یو کے ایک سابق طالب علم ابھینئے کی پٹائی شروع کر دی۔ انھوں نے اس کا پیچھا کر کے لان میں اس کی لنچنگ کی۔ میں دوسرے طلبا کے ساتھ ابھینئے کو بچانے کے لیے دوڑا جو اس پٹائی کے بعد بالکل بیہوش ہو گیا تھا۔ میں نے ایمبولنس بلوا کر اسے طبی امداد کے لیے بھیج دیا۔

ان سب کے بعد جو ہوا وہ بے حد بھیانک تھا۔ مجھے پھر موب کے ذریعہ دھمکی دی گئی اور میری سیکورٹی کو دھیان میں رکھتے ہوئے کچھ طلبا نے مجھے پی سی آر گاڑی میں بیٹھ جانے کے لیے کہا۔ حالانکہ آشوتوش مشرا اور سوربھ شرما نے پی سی آر گاڑی کو روک دیا اور ہمارے بغل میں ایک اے بی وی پی کے طالب علم کو بیٹھا دیا۔ یہ دونوں طلبا لگاتار پی سی آر روکنے اور مجھے دھمکانے کی کوشش کر رہے تھے۔

حیرت انگیز طریقے سے سوربھ شرما نے پی سی آر کو جہلم اور ستلج کے درمیان میں روک دیا اور پی سی آر کے اندر بیٹھے اے بی وی پی طلبا نے پی سی آر وین کے دروازے کو کھول دیا۔ دروازہ کھلنے پر اور زیادہ دھمکیاں دینے کے ساتھ پی سی آر کے اندر مجھ پر حملہ کیا گیا۔ حملہ کرنے والوں میں وین کے باہر موجود اے بی وی پی کے طلبا شامل تھے۔ میں حیران رہ گیا اور اپنی حفاظت کو لے کر خوفزدہ تھا۔ میں نے پی سی آر سے خود کو وسنت کنج پولس اسٹیشن لے چلنے کے لیے کہا۔ میری صحت خراب ہو رہی تھی اور میں دوا لینے کے لیے واپس اپنے ہاسٹل آ گیا۔ اب میں شکایت درج کرنے کے لیے پولس اسٹیشن جا رہا ہوں۔ میں جے این یو کے طلبا سے ستلج کے سامنے اکٹھا ہونے کی اپیل کرتا ہوں۔ ہم کچھ ہی دیر میں وہاں سے جائیں گے۔‘‘

جائے حادثہ پر موجود ایک طالبہ اپیکشا پریہ درشنی نے بھی اس واقعہ کے تعلق سے تفصیلات اپنی زبان میں پیش کی ہے، جو اس طرح ہے...

’’اے بی وی پی کے غنڈے اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ جے این یو اب کبھی بھی طلبا کے رہنے کے لحاظ سے محفوظ نہیں رہا۔ تقریباً 3.12 منٹ پر صبح میں نے اس بات کا ایک پیغام پایا جس میں لکھا تھا کہ اے بی وی پی کے لوگ جہلم میں طلبا کی پٹائی کر رہے ہیں۔ جب میں وہاں پہنچی تو دیکھا کہ سوربھ شرما اور آشوتوش مشرا کی قیادت میں ایک موب اکٹھا ہے۔ پولس وہاں پر موجود تھی اور وہ پولس کو بھی دھمکی دے رہے تھے۔ جے این یو ایس یو صدر بالاجی ایک دیگر اسٹوڈنٹ کے ساتھ پولس کی کار میں تھے جو وہاں ہونے والے تشدد کا گواہ تھا۔ سوربھ شرما نے پوری طاقت سے وین کا دروازہ کھولا اور ایک دیگر اے بی وی پی اسٹوڈنٹ کو بغل میں بیٹھنے کے لیے کہہ دیا۔ وہاں موجود عام طلبا اور ویڈیو کے مطابق اے بی وی پی کے غنڈوں نے جھگڑا شروع کرنے کے ساتھ ہی آس پاس کھڑے طلبا کی بے رحمی سے پٹائی شروع کر دی۔

جب سوربھ شرما نے بالاجی کو دھمکی دینی شروع کی تو میں نے انھیں آواز نیچے کر کے بات کرنے کے لیے کہا۔ اس نے مجھے بھی دھمکی دی اور گالی دی۔ اس کے بعد اپنی بھیڑ کے ساتھ ہیلتھ سنٹر کی طرف چل دیا۔ جب میں ہیلتھ سنٹر کے پاس دوسرے طلبا کو بتا رہی تھی کہ کیا کچھ ہوا تو اس نے پھر آ کر مجھے یہ کہتے ہوئے دھمکی دی کہ وہ میری پٹائی کر دیں گے۔ اور مجھے بات چیت کرنے کے لیے اُکسا رہے تھے۔ کچھ اور طلبا کے ساتھ میں نے چیخنا شروع کیا تب وہ واپس چلے گئے۔ پولس اسٹیشن کے راستے میں وین کو روکا گیا اور ان کے ذریعہ بالاجی کی گاڑی کے اندر پٹائی کی گئی۔ ان کی سیکورٹی کے لیے ہم وسنت کنج پولس اسٹیشن کی طرف دوڑے۔

اس واقعہ کے بعد وہ موب کے ساتھ کیمپس کے ستلج، ماہی مانڈوی اور دامودر سمیت مختلف حصوں میں خوف اور دہشت کا ماحول بنانے کے لیے گھومتے رہے۔ پٹائی میں جن طلبا کو چوٹیں آئی ہیں ان کی صفدر جنگ اسپتال میں ایم ایل سی ہو گئی ہے۔ اس کیمپس کو یہ حلف لینا ہوگا کہ اس طرح کے شرپسند لوگوں کو خاموشی سے طلبا برداشت نہیں کریں گے۔ وائس چانسلر کو اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ کیمپس کے اندر جمعہ سے جاری تشدد پر وہ ابھی تک کیوں خاموش بیٹھے ہیں۔ سیکورٹی آفس کو بھی اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ گارڈ کیوں خاموش کھڑے ہو کر اس پورے واقعہ کو دیکھتے رہے جب طلبا ان آر ایس ایس کے غنڈوں کے ذریعہ پیٹے جا رہے تھے۔

اے بی وی پی مردہ باد

سَنگھ گروہ ہو برباد!‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔