جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے

ادبی تاریخ پر نظر رکھنے والی معروف مصنفہ اور مترجم رخشندہ جلیل کی تازہ تخلیق’’شہریار : اے لائف ان پوئٹری کے اجراء کے موقع پر شرکاء نے شہریار کی زندگی کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔

رخشندہ جلیل خطاب کرتے ہوئے 
i
user

قومی آواز بیورو

حقیقت تو یہ ہے کہ شہریار کی ایک بار بات شروع ہو جائے تو پھر ادب کا شیدائی ان میں ایسا کھو جاتا ہے کہ شہریار کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ کچھ ایسا ہی اتوار کی اس شام کو ہوا جب ادبی تاریخ پر نظر رکھنے والی معروف مصنفہ اور مترجم رخشندہ جلیل کی تازہ تخلیق ’’شہریار: اے لائف ان پوئٹری (شہریار،شاعری میں زندگی) کتاب کااجرا ہوا جس میں ادب کی معروف شخصیات نے شرکت کی۔

تقریب کی ایک یادگار تصویر 
تقریب کی ایک یادگار تصویر 

حقیقت تو یہ ہے کہ ایک مرتبہ شہریار کی با ت شروع ہو جائے توپھر سب اپنے تقاضہ اور مصروفیات بھول جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی معروف فلم ساز مظفر علی کے ساتھ ہوا، وہ شہریار میں ایسا کھوئے کہ بس انہی کو یاد کرتے رہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مظفر علی کے سینئر رہے شہریار ترقی پسند تحریک کے ان شاعروں میں سے تھے جنہوں نے اپنے وقت کے ہر موضوع پر کلام کہا۔ بقول رخشندہ جلیل ’’شہریار کی شاعری کا موضوع ہر وہ شئی ہے جو انسان کی دلچسپی کا باعث ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ شہریار کی شاعری وقت کی آواز ہے لیکن ان کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ جو شاعری انہوں نے 1965 میں کی تھی، آج بھی لوگوں کو تروتازہ محسوس ہوتی ہے اور ایسا احساس ہوتا ہے کہ جیسے ان کی شاعری موجودہ دور کی آواز ہو ‘‘۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مظفرعلی نے تسلیم کیا کہ شہریار وہ شخص ہیں جنہوں نے ان کی زندگی کو یکسر بدل دیا۔ مظفر علی نے ہلکے انداز میں کہا ’’میں پڑھنے تو سائنس گیا تھا لیکن اردو ادب کے لوگوں نے مجھے گمراہ کر دیا اور اس کے اصل ملزم شہریار ہیں‘‘۔ اس موقع پر شہریار کے ساتھ گزارے ایک ایک لمحےکو انہوں نے یاد کیا اور کہا کہ ویسے تو کسی بھی فنکار یا ادیب کے ہر پہلو کو سمجھنا مشکل ہے لیکن شہریار کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو سمجھنا ناممکنات میں سے ہے۔

جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے

زندگی روز نئے رنگ بدلتی کیوں ہے

رخشندہ جلیل جن کے لئے شہریار ان کے گھر کے فرد کی حیثیت رکھتے تھے کیونکہ وہ ان کے نانا کے شاگرد تھے اور ان کی والدہ ان کو بھائی کہہ کر پکارتی تھیں اس لئے رخشندہ کے لئے شہریار ماموں کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن ان سب سے بڑا رخشندہ کا شہریار سے رشتہ ان کی شاعری ہے، انہوں نے کہا کہ ’’اس کتاب کے لکھنے کے پیچھے دو وجہ تھیں ایک تو مجھے شہریار کی شاعری بہت پسند تھی دوسرا یہ کہ انہوں نے ترقی پسند تحریک کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی تھی۔ میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ اس تحریک کا کیا ہوا اور کس طرح اس تحریک کے جراثیم ادب میں داخل ہوئے اور اس کا اثر کیا ہوا۔ میں دراصل یہ چاہتی تھی کہ میں اس دھاگے کو اٹھاؤں اور دیکھوں کہ اس کا اثر کیوں کم ہوا، دوسرا میں یہ بھی جاننا چاہتی تھی کہ دوسری زبان کے ادب کے میل کے ساتھ کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں‘‘۔ معروف ادیب اشوک واجپئی نے اس موقع پر شہریار پر لکھی اس کتاب کی تعریف کی۔

سیف محمو د نے انتہائی دلچسپ انداز میں نظامت کرتے ہوئے مصنفہ اور کتاب کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ رخشندہ جلیل نے شاعر اور موضوع کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے۔ سیف نے کہا کہ رخشندہ جلیل نے جس انداز میں اس موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے اس کی عکاسی شہریار کے ہی ایک شعر سے یوں ہوتی ہے۔

تجھ کو رسوا نہ کیا، خود بھی پشیماں نہ ہوئے

عشق کی رسم کو اس طرح نبھایا ہم نے

اس موقع پر رخشندہ نے انگریزی پبلشنگ ہاؤسز کی تعریف کی اور کہا کہ وہ اردو ادب کی زبردست خدمت کر رہے ہیں۔ واضح رہے اس کتاب کی اشاعت ہارپر کولنس پبلشنگ ہاؤس نے کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Aug 2018, 10:55 AM