جھارکھنڈ: بیف کے شک میں مسلم گھروں پر حملہ، ایک شخص کی حالت نازک

کوڈرما کے نواڈیہہ میں اقلیتی طبقہ کے گھروں پر کچھ مقامی لوگوں نے حملہ کر توڑ پھوڑ کی اور ایک شخص کی بے رحمی سے پٹائی بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ شادی کے دوران مسلمانوں نے بیف کا استعمال کیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

جھارکھنڈ میں شادی تقریب کے دوران ممنوعہ گوشت یعنی بیف کے استعمال کا شک ہونے پر اقلیتی طبقہ کے کئی گھروں پر حملہ کا معاملہ منظر عام پر آیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق جھارکھنڈ کے کوڈرما واقع نواڈیہہ میں نام نہاد گئو رکشکوں نے اقلیتی طبقہ کے ایک شخص پر قاتلانہ حملہ کیا اور کئی مکانوں میں زبردست توڑ پھوڑ کی۔ اس واقعہ نے علاقے کے ماحول کو کشیدہ کر دیا ہے جس کے بعد پولس انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ اس سلسلے میں جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ بابو لال مرانڈی کا کہنا ہے کہ یہ غنڈہ گردی آر ایس ایس اور بی جے پی کے لوگوں کی ہے جنھوں نے ریاست کا ماحول خراب کرنے کے مقصد سے غلط افواہ وہاٹس ایپ سے پھیلائی اور اقلیتی طبقہ کے خلاف لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی۔

دراصل شادی کی تقریب گزشتہ سوموار کو ہوئی تھی اور پولس کا کہنا ہے کہ کچھ گاؤں والوں کو مسلم گھروں کے پاس میدان میں کھُر اور ہڈیاں ملی تھی۔ ان لوگوں کا دعویٰ تھا کہ سوموار کو شادی کی دعوت میں بیف کھلایا گیا تھا۔ کوڈرما کی پولس سپرنٹنڈنٹ شیوانی تیواری کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے اقلیتی طبقہ پر حملہ کو دیکھتے ہوئے سات لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ حالات اب قابو میں ہیں۔‘‘ انھوں نے نظم و نسق کو بہتر بنائے رکھنے کے لیے آس پاس کے علاقوں میں کثیر تعداد میں پولس فورس تعینات کیے جانے کی بھی جانکاری دی ہے۔

پولس سپرنٹنڈنٹ نے یہ پتہ کرنے کے لیے کہ استعمال کیا گیا گوشت ممنوعہ ہے یا نہیں، اس کو فورنسک جانچ کے لیے بھیج دیا ہے۔ شیوانی تیواری نے کہا کہ رپورٹ ملنے کے بعد حقیقت حال کا پتہ چلے گا۔ حملہ میں بری طرح زخمی ہوئے مسلم شخص کو علاج کے لیے رانچی کے راجندر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ریمس) بھیجا گیا ہے۔ پولس نے دیہی لوگوں کے ذریعہ کئی گھروں میں گھس کر کی گئی توڑ پھوڑ کا اعتراف کیا ہے اور یہ بھی بتایا کہ اس دوران کئی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

اس پورے معاملے میں جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ بابو لال مرانڈنی کا کہنا ہے کہ ’’یہ حملہ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت نواڈیہہ میں اقلیتی طبقہ پر ظلم ڈھانے کے لیے کیا گیا۔ اس کے پیچھے واضح طور پر بی جے پی کے لوگ ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’بی جے پی کو جھارکھنڈ میں اپنی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی اس لیے ماحول بگاڑنے کی کوشش ہو رہی ہے۔‘‘ بابو لال مرانڈی کا کہنا ہے کہ ’’وہاٹس ایپ گروپ سے افواہ پھیلا کر لوگوں کو مشتعل کیا جارہا ہے اور اس طرح خون خرابے کے واقعہ کو انجام دے کر سماجی خیر سگالی اور سالوں سے یہاں موجود بھائی چارے کو بگاڑنے کا کام بی جے پی کے لوگ کر رہےہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’لوک تنتر پر بھیڑ تنتر حاوی ہو رہا ہے۔ اگر سماج کا کوئی شخص قانون کے خلاف جا کر کوئی غلط کام یا گئوکشی جیسا عمل کرتا بھی ہے تو اس کے لیے حکومت نے قانون بنا رکھا ہے۔ اس قانون کے تحت ہی کارروائی ہونی چاہیے۔ قانون کو ہاتھ میں لے کر اس طرح کے واقعات کو انجام دینا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ اقلیتی طبقہ کے گھروں پر حملہ پوری طرح قابل مذمت ہے۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ جھارکھنڈ میں اس طرح کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گزشتہ سال 29 جون کو رام گڑھ میں نام نہاد گئو رکشکوں نے گائے کے گوشت کا کاروبار کرنے کے الزام میں علیم الدین انصاری کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا تھا۔ اس معاملے میں اسی سال 21 مارچ کو رام گڑھ کی فاسٹ ٹریک عدالت نے بی جے پی لیڈر سمیت 11 لوگوں کو تاحیات جیل کی سزا سنائی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔