’سارڈین مچھلی‘ کے معدوم ہونے کے سبب جنوبی افریقہ میں 60 ہزار سے زائد ’پینگوئن‘ کی بھوک سے موت، تحقیقات میں انکشاف

افریقی پینگوئن کو 2024 میں ہی ’شدید خطرے سے دوچار‘ قرار دے دیا گیا تھا۔ دنیا میں اب صرف 10 ہزار افزائش نسل جوڑے باقی ہیں۔ گزشتہ 30 سالوں میں ان کی تعداد 80 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر اے آئی</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

ایک نئی تحقیقات میں پینگوئن کے متعلق حیران کن انکشاف ہوا ہے۔ دراصل جنوبی افریقہ کے ساحل پر گزشتہ کچھ سالوں میں 60 ہزار سے زائد افریقی پینگوئن بھوک سے مر گئے۔ پینگوئن کے مرنے کی اصل وجہ ہے ان کی اہم خوراک سارڈین مچھلی کا تقریباً غائب ہو جانا۔ 2004 سے 2012 کے درمیان جنوبی افریقہ کے 2 سب سے بڑے پینگوئن کالونی ڈیسن آئی لینڈ اور رابن آئی لینڈ میں 95 فیصد سے زائد پینگوئن موت کی نیند سو گئے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ پینگوئن اپنے پنکھ بدلنے (مولٹنگ) کے وقت بھوکے رہنے کے سبب مر گئے۔ ہر سال پینگوئن اپنے پرانے پنکھ بدلتے ہیں، یہ عمل 21 دنوں تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران وہ سمندر میں نہیں جا سکتے اور زمین پر ہی رہتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں پہلے اچھی طرح موٹا ہونا پڑتا ہے۔ اگر مولٹنگ سے پہلے یا بعد میں کھانا نہیں ملا تو ان کے جسم میں موجود ذخائر ختم ہو جاتے ہیں اور وہ مر جاتے ہیں۔


واضح رہے کہ سمندری درجہ حرارت میں اضافے اور نمک کی مقدار میں تبدیلی کے سبب سارڈین مچھلیاں انڈے نہیں دے پا رہی ہیں۔ دوسری طرف بڑے بڑے جہاز اب بھی زیادہ سے زیادہ مچھلیاں پکڑ رہے ہیں۔ 2004 کے بعد صرف 3 سال کو چھوڑ کر ہر سال مغربی جنوبی افریقہ میں سارڈین مچھلی کی مقدار اپنی بلند ترین سطح سے 75 فیصد تک کم رہی ہے۔

افریقی پینگوئن کو 2024 میں ہی ’شدید خطرے سے دوچار‘ قرار دے دیا گیا تھا۔ دنیا میں اب صرف 10 ہزار افزائش نسل جوڑے باقی ہیں۔ گزشتہ 30 سالوں میں ان کی تعداد 80 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔ 6 سب سے بڑی پینگوئن کالونیوں کے آس پاس کمرشیل ماہی گیری پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ پینگوئن کے بچوں کی حفاظت کے لیے مصنوعی گھونسلے بنائے جا رہے ہیں۔ بیمار اور کمزور پینگوئن ہاتھ سے پالے جا رہے ہیں۔ شکاری جانوروں (جیسے سیل اور شارک) کو کالونیوں سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔


تحقیق میں شامل ڈاکٹر رچرڈ شرلے (یونیورسٹی آف ایکسیٹر برٹین) کہتے ہیں کہ ’’جو نقصان ہم نے 2011 تک دیکھا، اس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ اگر مچھلی کی تعداد میں تیزی سے اضافہ نہ کیا گیا تو افریقی پینگوئن کچھ ہی سالوں میں ختم ہو جائیں گے۔‘‘ جنوبی افریقہ کے میرین بایولوجسٹ پروفیسر لورین پچیگرو نے کہا کہ ’’یہ صرف پینگوئن کا مسئلہ نہیں ہے۔ بہت سی دوسری نسلیں بھی اسی خوراک پر منحصر ہیں۔ اگر چھوٹی مچھلیوں کو نہیں بچایا گیا تو پورا سمندری ماحولیاتی نظام تباہ ہو جائے گا۔‘‘ حالت یہ ہے کہ آج کیپ ٹاؤن کے مشہور بولڈر بیچ پر بھی پینگوئن دیکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ جو کبھی ہزاروں کی تعداد میں تھے، اب سیاح مشکل سے کچھ پینگوئن دیکھ پاتے ہیں۔ یہ فطرت کی طرف سے ایک اور بڑی وارننگ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔