مرلی منوہر جوشی نے مودی حکومت کو دیے ’زیرو نمبر‘

ایک پرائیویٹ نیوز ویب سائٹ سے بات چیت کے دوران سابق مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی نے کہا کہ ’’نمبر اُسے دیا جاتا ہے جس نے کاپی پر کچھ لکھا ہو، یہاں تو پوری کاپی خالی ہے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بی جے پی کے سینئر لیڈر اور ’مارگ دَرشک منڈل‘ کے رکن مرلی منوہر جوشی سے جب مودی حکومت کے چار سال کی کارگزاریوں پر نمبر دینے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’خالی کاپی پر کیا نمبر دوں‘‘۔ مرلی منوہر جوشی کا یہ جواب مودی حکومت کی نہ صرف تنقید ہے بلکہ نام نہاد کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بی جے پی لیڈروں کو آئینہ دکھانے والا بھی ہے۔ جوشی نے مودی حکومت کو ’زیرو‘ نمبر والی حکومت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے کوئی ایسا قابل ذکر اور مثبت کام نہیں کیا جس کے لیے اسے نمبر دیا جا سکے۔

قابل ذکر ہے کہ مرلی منوہر جوشی مدھیہ پردیش میں گزشتہ دنوں ایک تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے تھے جہاں ایک پرائیویٹ نیوز ویب سائٹ سے بات چیت کے دوران انھوں نے مودی حکومت سے متعلق اپنا نظریہ بیان کیا۔ اس گفتگو کے دوران ہی نامہ نگار نے مودی حکومت کے چار سالوں کی کارگزاریوں کو نمبر دینے کی بات کہی تھی جس پر انھوں نے کہا کہ ’’ امتحان میں نمبر تو تب دیا جائے گا جب کاپی میں کچھ لکھا ہو۔ یہاں تو کاپی ہی خالی ہے۔ ایسے میں نمبر کیسے اور کتنے دوں۔‘‘

جوشی نے اس دوران پلاننگ کمیشن کو ہٹا کر نیتی آیوگ قائم کیےجانے پر بھی حکومت کی تنقید کی۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ نیتی آیوگ کا نام ’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹرانسفارمنگ انڈیا‘ ہے۔ اس میں آیوگ جوڑ کر حکومت کیا حاصل کر لے گی، یہ سمجھ سے پرے ہے۔ انھوں نے سرکاری منصوبوں کو عام آدمی سے دور ہو جانے کی بات بھی کہی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’غریب آدمی کے لیے کون سے منصوبے ہیں، اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔‘‘ گلوبلائزیشن کے تعلق سے بھی مرلی منوہر جوشی نے کہا کہ ہندوستان کا امریکہ، چین اور جاپان جیسے ملک استحصال کر رہے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں جوشی بی جے پی کے سب سے اہم لیڈروں میں سے تھے لیکن 2014 میں مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد وہ حاشیے پر ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ ان کی ’مودی-شاہ جوڑی‘ سے بہت زیادہ نہیں بنتی ہے۔ مرلی منوہر جوشی کانپور سے ممبر پارلیمنٹ ہیں اور اس طرح کی خبریں بھی گشت کر رہی ہیں کہ 2019 میں ان کو بی جے پی سے ٹکٹ نہیں ملے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔