ویاپم کے بعد ’ای-ٹنڈر‘ میں پھنسے شیوراج، لگا 3000 کروڑ گھوٹالہ کا الزام

کہا جا رہا ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات کو دیکھتے ہوئے اس گھوٹالہ کی جانچ میں نرمی برتی جا رہی ہے۔ معاملے کی جانچ کرانے والے سینئر افسر کو عہدہ سے ہٹانے کے بعد غیر جانبدارانہ جانچ پر سوال اٹھ رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مدھیہ پردیش میں بی جے پی حکومت کے مکھیا شیو راج سنگھ چوہان کے سامنے آئندہ اسمبلی انتخابات سے ٹھیک پہلے ایک اور بڑا گھوٹالہ چیلنج بن کر کھڑا ہے۔ انگریزی اخبار ’اکونومک ٹائمز‘ کی خبر کے مطابق ریاست کے ’ای-ٹنڈر‘ عمل میں بدعنوانی کر کچھ نجی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کا معاملہ سامنے آیا ہے اور یہ پورا کھیل اعلیٰ افسران کی سطح پر چل رہا تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ داخلی جانچ میں الزامات کی تصدیق ہونے کے باوجود حکومت نے اب تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کرایا ہے۔ اتنا ہی نہیں، معاملہ سامنے آنے کے بعد جانچ شروع کرانے والے ایک افسر کو ہٹا کر ان کی ذمہ داری دوسرے اعلیٰ افسر کو دے دی گئی ہے۔

خبروں کے مطابق یہ گھوٹالہ کئی سال سے حکومت کی ناک کے نیچے جاری تھا، لیکن اس کا انکشاف اب ہوا ہے۔ الزام ہے کہ اس گھوٹالے میں مدھیہ پردیش واٹر کارپوریشن کی جانب سے نکالے گئے کروڑوں روپے کے تین ٹھیکوں کے ای ٹنڈر میں فرضی واڑا کیا گیا ہے۔ مارچ میں ان ٹھیکوں کے لیے بولی لگائی گئی تھی۔ یہ تین ٹھیکے راج گڑھ اور ستنا ضلع میں 2322 کروڑ روپے کے دیہی آبی فراہمی منصوبہ سے جڑے تھے۔ خبروں کے مطابق تینوں ٹھیکوں کی نیلامی عمل سے اس طرح چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی کہ حیدر ااباد کی دو اور ممبئی کی ایک کمپنی کی بولی سب سے کم ہو گئی اور انھیں ٹھیکہ مل گیا۔

اس معاملے میں مدھیہ پردیش واٹر کارپوریشن کو اس بات کی جانکاری دی گئی کہ ٹنڈر عمل میں آن لائن دستاویزات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور اس میں نجی کمپنیوں اور اعلیٰ نوکرشاہی کی رضامندی بھی شامل ہے۔ انگریزی روزنامہ میں شائع خبر کے مطابق ٹھیکہ حاصل کرنے والی کمپنیوں نے اندر کے لوگوں کی مدد سے پہلے ہی دوسری کمپنیوں کی بولیاں دیکھ لیں اور پھر ان سے کم بولی لگا کر ٹنڈر حاصل کر لیا۔ بہت کم فرق سے ان ٹھیکوں کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد ایک بڑی ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ تعمیر کمپنی نے انٹرنل اسیسمنٹ کرانے کے بعد شکایت کی تھی۔

کمپنی کی شکایت کے بعد واٹر کارپوریشن کے ایک افسر نے مدھیہ پردیش اسٹیٹ الیکٹرانکس ڈیولپمنٹ کارپوریشن (ایم پی ایس ای ڈی سی) سے یہ پتہ لگانے کے لیے کہا کہ ایسا کیسے ہوا۔ اس کے بعد ایم پی ایس ای ڈی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر منیش رستوگی نے داخلی جانچ کرائی جس میں الزامات کی تصدیق ہوئی۔ یہی نہیں، جانچ میں یہ بھی پتہ چلا کہ صرف واٹر کارپوریشن ہی نہیں بلکہ محکمہ عوامی تعمیرات، آبی وسائل محکمہ، ریاستی سڑک ترقیات اتھارٹی اور پروجیکٹ امپلیمنٹیشن یونٹ کے 6 پروجیکٹس کے ای-ٹنڈر عمل میں بے ضابطگی تھی۔ اس کے بعد رستوگی نے ایم پی ایس ای ڈی سی کو خدمات فراہم کرنے والی ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز اور اینٹریس سسٹم کو سمجھوتے پر عمل نہیں کرنے کے لیے نوٹس بھیجا۔ نوٹس کے جواب میں دونوں کمپنیوں نے مانا ہے کہ ای-ٹنڈر عمل میں سائبر فراڈ ہوا ہے۔ اس کے بعد ایم پی ایس ای ڈی سی نے سبھی محکموں سے 6 ٹنڈر رَد کرنے کو کہا ہے۔ معاہدے کے تحت ٹی سی ایس کو ہیلپ ڈیسک بنانے، ہارڈ ویئر اور ٹریننگ کا کام دیا گیا تھا اور اینٹریس کو ایپلی کیشن ڈیولپمنٹ اور دیکھ ریکھ کا کام دیا گیا تھا۔

لیکن سب سے حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ رستوگی کو ان کی داخلی جانچ رپورٹ آنے کے بعد اچانک سے سائنس اور ٹیکنالوجی محکمہ کے چیف سکریٹری کی اضافہ ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا گیا اور پرمود اگروال کو ذمہ داری دے دی گئی۔ حالانکہ رستوگی نے خود سے ذمہ داری لیے جانے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ فی الحال ریاست کے چیف سکریٹری بی پی سنگھ کی ہدایت پر سبھی 9 ٹھیکوں کی جانچ اقتصادی جرائم وِنگ (ای او ڈبلیو) کو دے دی گئی ہے۔ ای او ڈبلیو کے ایک افسر کے مطابق یہ گھوٹالہ 3000 کروڑ روپے کا ہے۔

لیکن ٹی سی ایس اور اینٹریس کی داخلی جانچ میں تین کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ڈیٹا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے الزام کی تصدیق ہونے کے باوجود ابھی تک معاملے میں ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔ الزام لگ رہا ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات کو دیکھتے ہوئے پولس جانچ میں نرمی برتی جا رہی ہے۔ ایک جانب رستوگی کو عہدہ سے ہٹانے اور جانچ کے دائرے میں آئے بڑے افسران کے اپنے عہدہ پر بنے رہنے سے غیر جانبدارانہ جانچ پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ ریاست کی اپوزیشن پارٹی کانگریس نے بھی اس معاملے پر وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا ہے اور معاملے کی جانچ سی بی آئی یا سپریم کورٹ کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔