کیرانہ انتخاب: نند-بھاوج کا دلچسپ مقابلہ

کیرانہ میں گوجروں کے لیے مذہب سے اوپر ذات ہے۔ اس سے پہلے بی جے پی میں ہونے کے باوجود حکم سنگھ کو مسلمانوں کا ایک حصہ ووٹ کرتا رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

کیرانہ: بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ حکم سنگھ کے انتقال کے بعد خالی ہوئی کیرانہ لوک سبھا سیٹ کے ضمنی انتخاب کی تصویر اب پوری طرح صاف ہو گئی ہے۔ باضابطہ طور پر آج ان کی بیٹی مرگانکا سنگھ کو بی جے پی نے کیرانہ سے امیدوار مقرر کر دیا ہے۔ اس سے قبل متحد اپوزیشن نے منور حسن کی بیوی تبسم حسن کو اپنا امیدوار بنایا تھا۔ وہ ایک معاہدہ کے تحت آر ایل ڈی کے نشان پر لڑ رہی ہیں جب کہ ان کے بیٹے ناہد حسن سماجوادی پارٹی کے ممبر اسمبلی ہیں۔ یہاں 28 مئی کو انتخاب ہونا ہے۔ ظاہر ہے اب یہ لڑائی ان دونوں امیدواروں کے درمیان آ کر سمٹ گئی ہے۔ کیرانہ انتخاب سیاسی طور پر کافی اہمیت کی حامل ہے اس لیے لوگوں کی نظریں اس سیٹ پر جمی ہوئی ہیں۔

سیاسی داؤ پیچ سے الگ اس نئی تصویر کے بعد حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ اب یہ لڑائی نند اور بھاوج (بھابی) کے درمیان ہوگی۔ دراصل حکم سنگھ اورمنور حسن ایک ہی فیملی سے آتے ہیں۔ دونوں کلسیان کھاپ سے ہیں۔ بہت پہلے حسن فیملی نے اسلام مذہب قبول کر لیا تھا جب کہ حکم سنگھ فیملی ہندو مذہب میں ہی رہی۔ کیرانہ ایک گوجر اکثریتی سیٹ ہے۔ یہاں تقریباً 4 لاکھ گوجر ہیں جن میں نصف مسلم گوجر ہیں۔ مقامی گوجروں میں مذہب سے زیادہ ذات کا اثر ہے اور یہاں نعرہ ہے کہ ’گوجر-گوجر ایک سمان، ہندو ہو یا مسلمان‘۔ ٹکٹ کی اٹھا پٹخ کے دوران جب مسلم گوجروں کا رخ مرگانکا سنگھ کی طرف بڑھنے لگا تو متحد اپوزیشن اس بات کو سمجھ گیا اور گوجر کی بیٹی کے مقابلے کے لیے گوجر کی بہو کو لایا گیا۔ کیرانہ کے مقامی کارکن محمد علی ’قومی آواز‘ کو بتاتے ہیں کہ ’’اگر مرگانکا بہن کے سامنے تبسم بھابی کو نہ لایا جاتا تو نصف سے زیادہ مسلمان گوجر مرگانکا کو ووٹ کرتا۔‘‘ کیرانہ میں گوجروں کے لیے مذہب سے اوپر ذات ہے۔ اس سے پہلے بی جے پی میں ہونے کے باوجود حکم سنگھ کو مسلمانوں کا ایک حصہ ووٹ کرتا رہا ہے۔

کیرانہ کے مہربان منصوری بتاتے ہیں کہ ’’مظفر نگر فساد اور ہجرت جیسے معاملوں میں غیر ذمہ دارانہ بیانات کے سب حکم سنگھ مسلمانوں کے دل سے اتر گئے ورنہ مسلمان بھی انھیں بابو جی کہہ کر ہی عزت دیتے تھے۔ اب بھی کچھ مسلمان ان کی بیٹی کے ساتھ ہیں۔ حال ہی میں ہوئے بلدیاتی انتخاب میں منور حسن کے بھائی انور حسن کو انتخاب میں فتحیاب کرانے میں حکم سنگھ نے مدد کی تھی جس سے وہ کیرانہ کے چیئرمین بن گئے۔ اب انور حسن اپنی سگی بھابی تبسم کے ساتھ نہیں ہیں۔ وہ اپنی چچیری بہن مرگانکا کے ساتھ ہیں۔

تبسم حسن آر ایل ڈی امیدوار کے طور پر انتخاب لڑ رہی ہیں جنھیں ایس پی-بی ایس پی اور کانگریس کی حمایت حاصل ہے۔ کانگریس لیڈر عمران مسعود نے ٹکٹ میں ان کی مخالفت کی تھی لیکن اب وہ بھی حمایت میں آ گئے ہیں۔ تبسم اس سے قبل 2009 میں کیرانہ سے ممبر پارلیمنٹ رہ چکی ہے۔ انھوں نے حکم سنگھ کو ہی ہرایا تھا۔ اگر اس انتخاب میں وہ ہار جاتی ہیں تو مرگانکا سنگھ اپنے والد کی شکست کا بدلہ بھی لے لیں گی۔ فی الحال یہ انتخابی لڑائی برابری کی ٹکر نظر آ رہی ہے۔ 2014 میں کیرانہ لوک سبھا سے حکم سنگھ نے ناہد حسن کو ہرا دیا تھا۔ اس کے بعد 2017 کے اسمبلی انتخاب میں ناہد حسن نے مرگانکا سنگھ کو ہرا کر حساب برابر کر لیا۔ پہلے اس لوک سبھا سیٹ سے جینت چودھری کو بھی مشترکہ امیدوار بنائے جانے کی بات گرم تھی لیکن گوجروں کے مرگانکا سنگھ کے حق میں جمع ہونے کے خطرے نے تبسم حسن کو امیدوار بنوا دیا۔ تھانہ بھون کے سابق ممبر اسمبلی اور کانگریس لیڈر راؤ وارث کے مطابق نئے فارمولے سے تبسم حسن کی حالت مضبوط ہو گئی ہے۔ مرگانکا سنگھ کے ساتھ لوگوں کو ہمدردی ہے کہ انھوں نے اپنے والدکو کھویا ہے تو تبسم حسن نے بھی اپنے شوہر کو کھویا ہے۔ گزشتہ دنوں تبسم حسن کے سسر اختر حسن کا بھی انتقال ہو گیا۔ وہ بھی کیرانہ سے ممبر پارلیمنٹ رہے ہیں اس لیے مرگانکا اگر آنسو بہاتی ہیں تو آنسو تبسم حسن کے پاس بھی ہیں۔ مرگانکا سنگھ کے ٹکٹ کا اعلان آج ضرور کیا گیا ہے لیکن انتخابی تشہیر وہ ایک مہینے سے کر رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 May 2018, 7:14 PM