کيا خاشقجی کا معاملہ سعودی عرب کے ليے مشکلات کا سبب بنے گا؟

جمال خاشقجی کے معاملے پر سعودی حکومت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے تاہم رياض حکومت کے اقتصادی اثر و رسوخ کے سبب اس حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہيں کہ عالمی برادری اس ملک پر کتنا دباؤ ڈال سکتی ہے۔

کيا خاشقجی کا معاملہ سعودی عرب کے ليے مشکلات کا سبب بنے گا؟
کيا خاشقجی کا معاملہ سعودی عرب کے ليے مشکلات کا سبب بنے گا؟
user

ڈی. ڈبلیو

رياض حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کی اس ماہ کے اوائل ميں استنبول کے سعودی قونصل خانے سے گمشدگی اور مبينہ قتل کے تناظر ميں سعودی حکومت کے زير انتظام سرمايہ کاری کی ايک اہم کانفرنس ميں شرکت سے معذرت کرنے والوں کی فہرست بدستور بڑھتی جا رہی ہے۔ عالمی مالياتی فنڈ کی سربراہ کرسٹين لگارد نے تصديق کر دی ہے کہ وہ سعودی دارالحکومت ميں عنقريب ہونے والی سرمايہ کاروں کی کانفرنس ميں شرکت نہيں کريں گی۔ ايچ ايس بی سی، اسٹينڈرڈ چارٹرڈ، کريڈيٹ سوئيز جيسے بڑے بينکوں کے سربراہان پہلے ہی اس کانفرنس میں شرکت سے دستبرداری کا اعلان کر چکے ہيں۔ کئی اہم کمپنيوں کے سربراہان نے شرکت کا فيصلہ کھلا چھوڑا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر جرمن کمپنی سيمنز کے چيف ايگزيکيٹو جو کيسر، جو خاشقجی کے معاملے کو سنجيدہ ضرور سمجھتے ہيں ليکن ان کا ماننا ہے کہ سرمايہ کاری کانفرنس کا بائیکاٹ اس مسئلے کا حل نہيں۔

جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کی جماعت کرسچين ڈيموکريٹک يونين کے ايک قانون ساز يرگن ہارٹ نے حال ہی ميں ايک ريڈيو انٹرويو ميں کہا ہے، ’’ہم سعودی عرب اور شاہی خاندان کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال نہيں سکتے۔ ہميں مختلف صورتحال سے اس وقت نمٹنا ہو گا جب وہ نمودار ہوں۔‘‘ خارجہ پاليسی کے ماہر ہارٹ کے بقول سعودی عرب مشرق وسطیٰ ميں قيام امن اور اسرائيل اور فلسطينيوں کو قريب لانے کے ليے سرگرم ايک اہم قوت ہے۔ تاہم اسی دوران سعودی عرب نے يمن ميں ’ظالمانہ‘ جنگ بھی جاری رکھی ہوئی ہے جس کا نتيجہ انسانی تاريخ کے ايک بد ترين الميے کی صورت ميں نکلا ہے۔ جرمن پارليمان کے رکن ہارٹ کے مطابق خاشقجی کے کيس ميں آئندہ چند ايام ميں جو بھی حقائق سامنے آئيں گے، ان کے بعد اگر ضروری سجھا گيا، تو يورپ سعودی عرب کے حوالے سے اپنی پاليسی تبديل کرے گا۔

يہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب کے حوالے سے پاليسی ميں ترميم کے بے انتہا اہميت کے حامل نتائج برآمد ہو سکتے ہيں۔ سعودی عرب ايک عرصے سے مغربی رياستوں کے قابل ’بھروسا اتحادی‘ کے طور پر دیکھا گيا ہے۔ رياض حکومت دہشت گردی کے انسداد اور مشرق وسطیٰ ميں قيام امن کے ليے اپنی خدمات پيش کرنے کی نشاندہی کرتی آئی ہے۔ شامی خانہ جنگی ميں بھی سعودی کردار واضح ہے۔ اور سب سے اہم بات يہ ہے کہ يہ ملک ايران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود رکھنے کے ليے کارفرما ہے۔ يہی وجوہات ہيں کہ رياض حکومت کے ساتھ اتحاد، مغرب کے ليے سياسی و اسٹريٹيجک اہميت کا حامل ہے۔

دوسری جانب جرمنی ميں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے سعودی شہزادہ خالد بن فرحان السعود نے ڈی ڈبليو کو بتايا ہے کہ امريکا کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ضرورت ہے کيونکہ ان کو کنٹرول کيا جا سکتا ہے۔ بن فرحان کے مطابق امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو کے حاليہ سعودی دورے کا مقصد بھی کچھ اور ہی تھا اور وہ يہ کہ محمد بن سلمان کو اقتدار ميں رکھا جائے تاکہ امريکا اپنے منصوبوں پر عمل درآمد جاری رکھے۔ شہزادہ خالد بن فرحان السعود نے کہا، ’’سعودی خاشقجی کے معاملے ميں قربانی کا بکرا ڈھونڈ ہی ليں گے۔‘‘

سفارتی حلقوں ميں يہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ سعودی عرب کی اقتصادی قوت اس کے خلاف سفارتی رد عمل کو محدود رکھے گی۔ تيل کے ذخائر رياض حکومت کا ايک اہم ہتھیار ہے۔ يہ ملک روزانہ کی بنيادوں پر دس ملين بيرل خام تيل سپلائی کرتا ہے۔ رياض حکومت اور مغرب کے مابين کسی ممکنہ تناؤ کی صورت ميں تيل کی سپلائی محدود ہو سکتی ہے، جس کے سبب ايک اقتصادی بحران کی سی صورت حال پيدا ہو سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔